Maktaba Wahhabi

479 - 512
طرف متوجہ ہوں چنانچہ آپ نے شامی اور عراقی محاذوں پر کارروائی تیز تر کر دی اور جب شامی محاذ کو مدد کی ضرورت پیش آئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجوم کے محور کو شام کی طرف منتقل کرتے ہوئے خالد رضی اللہ عنہ کو شام روانہ کیا۔ مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو عراق کے محاذ پر باقی رکھا۔ میدان معرکہ سے برطرفی: جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روم وفارس سے جنگ کے لیے افواج کو بھیجنا شروع کیا، خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کو تبوک روانہ کیا اور انہیں حکم فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے پشت پناہ بن کر رہیں گے لیکن جب وہ یہ ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہے تو انہیں یہاں سے معزول کر کے تیماء بھیج دیا اور عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔[1] جنگی اسلوب میں ترقی: جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رومی افواج کی پیش قدمی اور اہل دمشق کے ان کے ساتھ مل جانے کی خبر ملی تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو خط ارسال فرمایا: ’’اپنے شہسواروں کو بستیوں اور دیہاتوں میں پھیلا دو، غلہ اور سامان پہنچنے کے ذرائع تنگ کر دو، شہروں کا محاصرہ نہ کرنا، جب تک کہ میرا حکم نہ آجائے۔‘‘[2] اور جب ان تک کافی فوج پہنچ گئی تو ان کو لکھا: ’’وہ تمہارے خلاف اٹھیں تو تم بھی ان کے خلاف اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو۔ انہیں جو مدد پہنچے گی میں تمہیں اس کے مثل مدد بھیجتا رہوں گا۔‘‘[3] قائدین کے ساتھ روابط کے وسائل کا تحفظ: ابوبکر رضی اللہ عنہ اور معرکہ کے قائدین کے مابین روابط کے وسائل انتہائی منظم تھے۔ قائدین کے خطوط خلیفہ کو پورے امان وتحفظ کے ساتھ پہنچتے تھے اور خلیفہ کا جواب پوری راز داری اور ترقی یافتہ سرعت کے ساتھ قائدین کو پہنچتا۔ دشمن کی مجال نہ تھی کہ وہ اچانک مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے، جس کی انہیں توقع نہ ہو۔ اسی طرح جنگی پلاننگ مسلمانوں کے یہاں انتہائی محکم ومنظم تھی، جو اللہ کے فضل وکرم سے اعدائے اسلام کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کے بنیادی اسباب وعوامل میں سے تھا۔[4] خلیفہ کی ذکاوت و زود فہمی: اسلامی فتوحات کے آغاز میں اسلامی جنگی منصوبہ بندی کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ مسلمانوں کے پاس
Flag Counter