کوتاہی نہ کرنا اور ان سے اچھے مشورہ کو نہ روکنا کیونکہ تمہاری رائے جنگ میں قابل تعریف اور انجام کار بابرکت ہو سکتا ہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کتنا بہتر ہے میرے لیے کہ میں آپ کے گمان کو سچ کر دکھاؤں اور آپ کی رائے میرے بارے میں خطا نہ کرے۔[1] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ روانہ ہو گئے، آپ کی فوج چھ سات ہزار کے درمیان تھی اور ان کی منزل مقصود فلسطین تھی۔ یہ لشکر بحر احمر کے ساحلی راستہ سے ہوتا ہوا بحر مردار کے پاس وادی عربہ میں پہنچا۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار مجاہدین پر مشتمل دستہ تیار کیا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی قیادت میں روم کی پیش قدمی کی جانب روانہ کیا، یہ دستہ رومیوں سے جا ٹکرایا اور دشمن کی قوت کو پارہ پارہ کر کے ان پر فتح حاصل کی اور بعض قیدیوں کے ساتھ واپس ہوا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ان قیدیوں سے پوچھ گچھ کی جس سے یہ پتہ چلا کہ رومی فوج رویس کی قیادت میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری میں ہے۔ ان معلومات کی روشنی میں عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو منظم کیا۔ جب رومی حملہ آور ہوئے تو مسلمان ان کا حملہ روکنے میں کامیاب ہو گئے اور رومی فوج کو واپس ہونے پر مجبور کر دیا اور اس کے بعد ان پر جوابی حملہ کر کے دشمن کی قوت کو تباہ کر دیا اور راہ فرار اختیار کرنے اور میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ اسلامی فوج نے ان کا پیچھا کیا اور روم کے ہزاروں فوجی مارے گئے اور اسی پر یہ معرکہ ختم ہو گیا۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہر جرنیل کو اس بات کا حکم دیا تھا کہ وہ دوسرے کے راستہ سے ہٹ کر راستہ اختیار کرے کیونکہ آپ کے پیش نظر اس میں بڑی مصلحتیں تھیں گویا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہاں اللہ کے نبی یعقوب علیہ السلام کی اقتدا کی تھی، [3] جس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا: يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنكُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (یوسف: ۶۷) ’’اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا، میں اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا۔ حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے، میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘ شام میں پوزیشن خراب ہونا: فتح شام پر مقرر اسلامی فوج کو مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ ان کے مقابلہ میں رومی سلطنت کی فوج تھی جو قوت و کثرت میں امتیازی پوزیشن کی حامل تھی۔ انہوں نے اپنے شہری مراکز کی حفاظت کے لیے قلعہ بنا رکھے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |