Maktaba Wahhabi

448 - 512
لہٰذا تم انہیں تقویٰ کا حکم دینا۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ تم طاقتور اور بڑے شریف انسان ہو اور دور جاہلیت کے تجربہ کار سردار ہو جبکہ جاہلیت میں گناہ ہی گناہ پایا جاتا تھا لہٰذا تم اپنی قوت و طاقت اور بہادری کو اسلام کی حالت میں مشرکین اور ان لوگوں کے خلاف استعمال میں لاؤ جنہوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا اور اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم اور مسلمانوں کے لیے عزت و غلبہ رکھا ہے۔ یہ نصیحت سن کر قیس بن ہبیرہ نے عرض کیا: اگر آپ باقی رہے (اللہ آپ کو باقی رکھے) تو آپ کو میرے بارے میں مسلمانوں کی حفاظت اور کفار کے خلاف جہد وکوشش سے متعلق ایسی خبریں پہنچیں گی جو آپ کو محبوب و پسندیدہ ہوں گی اور آپ خوش ہو جائیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تم پر رحم فرمائے، ایسا کرو۔ اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جابیہ میں رومیوں کے دو جرنیلوں کے ساتھ ان کی مبارزت اور ان دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: قیس نے سچ کر دکھایا اور وعدہ پورا کر دیا۔[1] یہاں ہم یہ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قیس بن ہبیرہ کی ہمت کو ابھارا اور ان کے اندر پوشیدہ طاقتوں میں جوش پیدا کیا اور ان کی اعلیٰ درجہ کی ممکنہ قوت کو بیدار کر کے اسلام کی حمایت اور جہاد میں لگا دیا۔ بلاشبہ عظماء وقائدین کے فضائل کو ذکر کرنے اور ان کی تعریف کرنے سے ان کی معنویات میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کو عظیم قوت حاصل ہوتی ہے، جو انہیں فدائیت اور قربانی پر ابھارتی ہے۔[2] لشکر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ :… ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو فوج کے ساتھ فلسطین روانہ کیا۔ آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ اختیار دیا تھا کہ چاہیں تو اپنے اس عمل پر قائم رہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سونپا تھا، [3] اور چاہیں تو وہ ان کے لیے وہ اختیار کریں جو دنیا و آخرت میں ان کے لیے بہتر ہو مگر یہ کہ موجودہ عمل ان کو محبوب ہو۔ اس پر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے آپ کو جوابی خط تحریر کیا: میں اسلامی تیروں میں سے ایک تیر ہوں اور اللہ کے بعد آپ اس تیر کو چلانے والے اور جمع کرنے والے ہیں، تو آپ دیکھیں کہ کون سا تیر قوی، افضل اور خوفناک ہے اس کو چلا دیں۔[4] جب آپ مدینہ واپس آئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم دیا کہ مدینہ سے باہر جا کر خیمہ زن ہو جائیں تاکہ لوگ آپ کے ساتھ جمع ہو جائیں۔ اشراف قریش میں سے بہت سے لوگ آپ کے ساتھ شامل ہوئے، جن میں حارث بن ہشام، سہیل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ جب آپ نے روانہ ہونے کا ارادہ فرمایا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کو رخصت کرنے نکلے، فرمایا: اے عمرو! تم رائے وتجربہ کے مالک ہو اور جنگی بصیرت رکھتے ہو، تم اپنی قوم کے اشراف اور مسلم صلحاء کے ساتھ جا رہے ہو اور اپنے بھائیوں سے ملو گے۔ لہٰذا ان کی خیر خواہی میں
Flag Counter