مضبوط مراکز میں سے تھا۔[1] لشکر ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ :… جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لشکر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کرنے کا عزم فرمایا تو بلایا اور انہیں الوداع کہتے ہوئے فرمایا: اس شخص کی طرح میری بات سنو جو سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی نیت سے سنتا ہے۔ تم بڑے لوگوں، عرب خانوادوں، مسلم صالحین اور جاہلیت کے سورماؤں کے ساتھ روانہ ہو رہے ہو، جو جاہلیت میں عصبیت وحمیت میں لڑ رہے تھے اور اب وہ اجر و ثواب اور اچھی نیت کی بنیاد پر قتال کر رہے ہیں لہٰذا تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو اور حقوق کے معاملہ میں تمام لوگ تمہاری نگاہ میں برابر ہوں۔ اللہ سے مدد طلب کرو وہ مددگار ہونے کی حیثیت سے کافی ہے، اور اللہ ہی پر توکل کرو وہ کارساز ہونے کی حیثیت سے کافی ہے۔ کل ان شاء اللہ روانہ ہو جاؤ۔[2] آپ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سے چار ہزار تک تھی اور اس لشکر کی منزل مقصود حمص تھی۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ مدینہ سے روانہ ہوئے، وادی القریٰ سے ہوتے ہوئے حجر (مدائن صالح) پہنچے اور وہاں سے ’’ذات منار‘‘ پھر ’’زیزا‘‘ اور پھر وہاں سے ’’موآب‘‘ پہنچے، وہاں دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی، ان سے قتال کیا، پھر آپ سے انہوں نے مصالحت کر لی۔ یہ پہلی صلح تھی جو شام میں ہوئی۔ پھرجابیہ کی طرف آگے بڑھتے رہے۔[3] یہ لشکر پہلے لشکر کا دایاں بازو اور دوسرے لشکر کا بایاں بازو تھا۔[4] ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قیس بن ہبیرہ بن مسعود المرادی عرب کے مشہور سورما تھے۔ ان کے سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو روانہ ہونے سے قبل وصیت فرمائی۔ فرمایا: تمہارے ساتھ ایک عظیم شرف ومنزلت کا آدمی عرب کے سورماؤں میں سے ہے۔ اس کی رائے اور مشورے سے اور جنگی قوت سے مسلمان بے نیاز نہیں ہو سکتے۔ اس کو اپنے سے قریب رکھنا اس کے ساتھ لطف وکرم کا برتاؤ کرنا اور اسے یہ محسوس کرانا کہ تم اس سے بے نیاز نہیں ہو اور نہ اس کو معمولی سمجھتے ہو۔ اس سے تمہیں اس کی خیر خواہی حاصل رہے گی اور دشمن کے مقابلہ میں اس کی کوششیں تمہارے ساتھ ہوں گی پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قیس بن ہبیرہ کو بلایا اور فرمایا: میں تمہیں ابوعبیدہ امین امت کے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ ان پر اگر ظلم کیا جائے تو وہ اس کے بدلہ میں ظلم نہیں کرتے اور اگر ان کے ساتھ بدسلوکی کی جائے تو معاف کر دیتے ہیں اور اگر ان سے تعلق توڑا جائے تو اس کو جوڑنے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ اہل ایمان کے ساتھ بڑے رحیم وشفیق ہیں اور کفار کے مقابلہ میں سخت ہیں۔ تم ان کی حکم عدولی نہ کرنا اور ان کی رائے کی مخالفت نہ کرنا۔ یہ تمہیں خیر ہی کا حکم دیں گے، میں نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ تمہاری بات سنیں |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |