بلکہ ان کے سامنے مسلم فوج کی قوت کا اظہار ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنی قوم کو جا کر خوف دلائیں اور اس طرح وہ مسلمانوں سے مرعوب ہوں۔[1] اسرار کو مکمل طور سے محفوظ رکھا جائے۔ اس سلسلہ میں ذرا بھی سستی اور تہاون نہ کیا جائے۔ خاص طور سے وہ اسرار جو مسلمانوں کے امور عام سے متعلق ہوں۔ جب تک راز انسان اپنے اندر محفوظ رکھے ہوئے ہے تب تک ایک دانا شخص اپنے امور میں تصرف کر سکتا ہے اگرچہ ان کے وجوہ مختلف ہوں لیکن جب راز افشاء ہو جاتے ہیں تو وہ انسان کے قابو سے باہر ہو جاتے ہیں اور پھر امور گڈمڈ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مشورہ طلبی کی درستی اس کے نتائج میں غور وفکر سے اہم ہے کیونکہ اگرچہ مشیر عمدہ رائے اور عقل کامل کا مالک ہو لیکن وہ اس وقت تک مشورہ طلب کرنے والے کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ اس کے سامنے مسئلہ بالکل واضح نہ ہو۔ اگر مشورہ طلب کرنے والا تفاصیل کو مخفی رکھتا ہے تو وہ اپنے اوپر ظلم ڈھاتا ہے کیونکہ اس مشورہ کا نقصان اسی کو ہوگا۔ قائد اور ذمہ دار کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ گھل مل کر رہنا چاہیے تاکہ ان کے معاملات کی اسے مکمل خبر رہے۔ ایسی صورتِ حال میں اسے ان کی مشکلات کو سمجھنے اور ان کا حل پیش کرنے میں بڑی مدد ملے گی، اور جو ذمہ دار اپنے ماتحتوں سے بالکل الگ تھلگ رہتا ہے ان کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہتا صرف خاص خاص بڑے طبقہ کے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے، اس تک صحیح معلومات نہیں پہنچتیں، صرف یہی خاص لوگ جو بتا دیں وہی اس کو معلوم ہوتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ لوگ بات کو پوری تفصیلات کے ساتھ اس تک نہیں پہنچاتے اور بسا اوقات ان معاملات کی توضیح وتجزیہ اس کے سامنے غلط طریقہ سے پیش کرتے ہیں۔ مسلمانوں کی حفاظت اور ان پر پہرہ کا اہتمام ضروری ہے۔ خاص کر پرخطر حالات میں اور پھر ان (محافظوں اور پہرہ داروں) پر مکمل بھروسہ کر کے نہیں بیٹھنا چاہیے، بلکہ ان کی نگرانی ضروری ہے تاکہ ان کی طرف سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ ذمہ دار کو چاہیے کہ وہ حکم عدولی کرنے والوں کو سزا دینے میں اعتدال کی راہ اختیار کرے، مستحقین کو سزا دینے میں کوتاہی اور سستی نہ برتے کیونکہ اس سے وہ مزید مخالفت اور حکم عدولی پر جری ہو جاتے ہیں پھر دوسروں کو اس سے حکم عدولی اور مخالفت کی جرأت پیدا ہو جاتی ہے اور فساد و انارکی پھیلتی ہے، اور نہ ہی سزا دینے میں سختی کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ اس سے رعایا کے اندر نفرت پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ ناراضی کا شکار ہو کر گروہ بندی اور پارٹی بازی پر اتر آتے ہیں بلکہ سزا کے نفاذ کے سلسلہ میں حکمت و توازن، دوراندیشی اور غور و فکر ضروری ہے تاکہ تربیتی مقصد حاصل ہو جائے اور کوئی فساد برپا نہ ہو اور نہ تنقید |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |