Maktaba Wahhabi

437 - 512
’’میری رائے ہے کہ آپ اس دین کے لیے خیر خواہ ہیں اور مسلمانوں پر شفیق ومہربان ہیں۔ جب آپ نے ایک رائے قائم کی اور رشد وصلاح اور خیر کے اعتبار سے اس کو اچھا سمجھا ہے تو آپ بلا خوف وخطر کر گزریے، نہ ہم آپ پر کوتاہی کا گمان کر سکتے ہیں اور نہ آپ کے اخلاص کو متہم کر سکتے ہیں۔‘‘ اس پر طلحہ، زبیر، سعد، ابوعبیدہ بن جراح، سعید بن زید اور مہاجرین وانصار کے تمام حاضرین نے یک زبان ہو کر کہا: ’’عثمان نے سچ کہا، آپ کی جو رائے ہو اس کو کر گزریے، ہم آپ کی سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کریں گے اور آپ کی رائے کو ہم متہم نہیں کریں گے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس طرح کی اور باتیں ذکر کیں۔ علی رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھے رہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوالحسن! تمہاری کیا رائے ہے؟ عرض کیا: ’’آپ بابرکت حکم اور بابرکت رائے ومشورہ کے مالک ہیں، اگر آپ خود ان کے مقابلہ میں نکلیں یا کسی اور کو بھیجیں تو ان شاء اللہ فتح ونصرت حاصل ہو گی۔‘‘ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہیں خیر کی خوشخبری سنائے، یہ تم نے کیسے جانا؟ فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((لَا یَزَالُ ہٰذَا الدِّیْنُ ظَاہِرًا عَلٰی کُلِّ مَنْ نَاوَأہُ حَتّٰی یَقُوْمَ الدِّیْنُ وَأَہْلُہٗ ظَاہِرُوْنَ۔))[1] ’’یہ دین برابر اپنے تمام مخالفین پر غالب رہے گا اور قیامت تک اس کے ماننے والے غالب رہیں گے۔‘‘ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنی پیاری ہے یہ حدیث، تم نے مجھے خوش کیا ہے، اللہ تمہیں دنیا وآخرت میں خوش کرے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اللہ کی حمدوثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کے بعد فرمایا: ’’لوگو! اللہ نے اسلام کے ذریعہ سے تم پر انعام کیا اور جہاد کے ذریعہ سے عزت بخشی اور اس دین کے ذریعہ سے دیگر تمام دین والوں پر تمہیں فضیلت عطا کی لہٰذا اللہ کے بندو! شام میں روم پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ، میں تمہارے اوپر امراء مقرر کروں گا انہیں پرچم دوں گا لہٰذا تم اپنے رب کی اطاعت کرو اور اپنے امیروں کی مخالفت نہ کرو، تم اپنی نیت اور سیرت کو اچھی بناؤ اور حلال کھاؤ، اللہ متقیوں اور نیک لوگوں کے ساتھ ہے۔‘‘[2] پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں، انہوں نے لوگوں میں اعلان کرتے ہوئے
Flag Counter