لشکر کشی کا ارادہ کیا تو عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، ابوعبیدہ بن جراح اور اہل بدر وغیرہ میں سے دیگر کبار مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم کو جمع کیا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ اعمال اس کا بدلہ نہیں ہو سکتے۔ اللہ کی بہت حمدوشکر ہے کہ اس نے تمہیں ایک کلمہ پر جمع کیا، آپس میں اتفاق پیدا کیا اور اسلام کی ہدایت بخشی اور شیطان کو تم سے دور رکھا۔ تم سے اس کو یہ توقع نہ رہی کہ تم اللہ کے ساتھ شرک کرو گے اور اس کے سوا کسی کو معبود بناؤ گے۔ عرب ایک امت ہیں، ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہیں شام میں روم کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دوں، جو مرے وہ شہادت کی موت مرے۔ نیکوں کے لیے جو کچھ اللہ کے پاس ہے بہتر ہے۔ اور جو زندہ رہے اللہ کے دین کی طرف سے دفاع کرتا ہوا زندہ رہے اور اللہ کے پاس مجاہدین کا اجر لازم کر لے۔ یہ میری رائے ہے۔ ہر شخص اس سلسلہ میں اپنی رائے کے مطابق مشورہ دے۔‘‘ سب سے پہلے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمدوثنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کے بعد فرمایا: ’’الحمد للہ، اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی مخلوق میں سے خیر کے لیے خاص کر لیتا ہے۔ اللہ کی قسم! آپ ہر خیر میں ہم پر سبقت لے جاتے ہیں اور یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اللہ کی قسم! میں آپ سے اس سلسلہ میں ملنا چاہتا تھا لیکن اللہ کو نہیں منظور تھا، آپ نے اس وقت یاد دلایا۔ آپ نے صحیح سوچا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو فوز و فلاح اور ہدایت کی راہ پر پہنچائے۔ شہسواروں پر شہسوار، پیادہ پا پر پیادہ پا اور لشکر پر لشکر روانہ کیجیے۔ اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرے گا، اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے گا اور جو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا ہے اس کو پورا کرے گا۔‘‘ پھر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’اے خلیفہ رسول! یہ رومی بڑے قوی اور طاقت ور ہیں، واللہ میرا خیال ہے کہ یک بارگی فوج کو نہ داخل کریں بلکہ شام کی حدود میں لشکر پر لشکر بھیجتے رہیں، یہ وقفہ وقفہ سے ان پر حملہ کرتے رہیں اس طرح دشمن کو نقصان ہوگا اور ان کی زمین ہمارے قبضہ میں آتی رہے گی اور روم سے قتال کی طاقت پیدا ہو گی۔ پھر آپ اہل یمن اور ربیعہ ومضر کو اپنے پاس جمع کریں اور پھر چاہیں تو خود ورنہ کسی دوسرے کے ذریعہ سے ان پر بڑا حملہ کر دیں۔‘‘ پھر عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ لوگوں پر خاموشی طاری تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اللہ تم پر رحم کرے، تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کے بعد فرمایا: |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |