رہنما رافع بن عمیر انہیں لے کر ایسے راستہ سے روانہ ہوئے جو انتہائی دشوار گزار، پانی کی قلت اور باشندگان کی کمی میں معروف تھا۔ خاص کر وہ حصہ جو قراقر سے سویٰ تک پھیلا ہوا ہے لیکن یہ سب سے کم مسافت کا راستہ تھا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کے سامنے اس راستہ کو اختیار کرنے کے وجوہ و اسباب واضح کر دیے کہ اس طرح جلدی اور پوری رازداری کے ساتھ اچانک منزل تک پہنچ جائیں گے۔ رافع نے خالد رضی اللہ عنہ سے بیس بڑی اونٹنیوں کو ان کے لیے تیار کرنے کا مطالبہ پہلے کر لیا تھا۔ ان کا یہ مطالبہ پورا کیا گیا، کچھ دنوں تک انہیں پانی دینا بند کر دیا، جب خوب پیاسی ہو گئیں تو انہیں پانی پلایا، انہوں نے پیٹ بھر لیے، پھر ان کے ہونٹ کاٹ دیے اور ان کے منہ پر تھوتھی چڑھا دی تاکہ جگالی نہ کر سکیں۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ سے کہا: اب آپ گھوڑوں اور سازوسامان لے کر روانہ ہوں اور راستہ میں جب کسی منزل پر قیام کریں تو ان اونٹنیوں میں سے ذبح کریں اور اس طرح لوگوں کو پانی حاصل ہوگا۔ یہ لشکر قراقر[1] سے ہوتا ہوا روانہ ہوا، جو صحرا کے حدود پر عراق کی آخری بستی تھی۔ جہاں سے راستہ شام کی پہلی بستی سول کو پہنچتا تھا۔ ان دونوں بستیوں کے درمیان پانچ راتوں کی مسافت تھی۔ دن میں آرام کرتے اور رات میں چلتے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے رافع بن عمیر پر پوری تحقیق کے بعد اعتماد کیا تھا اور اسی طرح محرز المحاربی کو ساتھ لیا، جو ستاروں کا ماہر تھا۔ یہ لوگ رات اور صبح کے وقت چلتے اور جب سورج بلند ہو جاتا اور دوپہر کا وقت ہو جاتا تو ٹھہر جاتے تاکہ ایک دن میں دو منزلیں طے کر لیں۔خالد رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی جسمانی حالت کو برقرار رکھنے کے لیے انہیں پیدل چلنے سے روک دیا تھا اور اونٹوں پر سوار ہو کر سفر کرنے کا حکم فرمایا تھا۔ راستہ میں جہاں منزل کرتے چند اونٹ ذبح کرتے اور ان کا پانی نکال کر گھوڑوں کو پلاتے اور لوگ اپنے ساتھ لائے ہوئے پانی کو استعمال کرتے۔ پانچویں دن پانی ختم ہو گیا۔ خالد رضی اللہ عنہ کو لوگوں کے پیاسے رہنے کا خوف دامن گیر ہوا۔ رافع سے کہا: اس کا کیا حل ہے؟ رافع کو آشوب چشم کی شکایت تھی، انہوں نے لوگوں سے کہا: اس علاقہ میں عوسج کے ایک چھوٹے درخت کو تلاش کرو۔ تلاش کے بعد انہیں اس کے تنے کا چھوٹا سا حصہ ملا، رافع نے انہیں وہاں کھدائی کرنے کا حکم دیا، جب کھدائی کی گئی تو پانی کا چشمہ برآمد ہوا۔ لوگوں نے خوب سیراب ہو کر پانی نوش کیا اور اس کے بعد خالد رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ساتھ صحیح سالم منزل کو پہنچ گئے۔[2] اس سفر کے دوران میں بعض عربوں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا تھا: اگر تم فلاں درخت تک صبح تک پہنچ گئے تو تمہیں اور تمہاری فوج کو نجات مل گئی اور اگر نہ پہنچ سکے تو تم سب کے لیے ہلاکت ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو لے کر اس تیزی سے چلے کہ صبح صبح اس درخت کے پاس پہنچ گئے، اس موقع پر |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |