پاس پہنچ جاؤ تو امیر جماعت تم ہو۔ والسلام علیک وحمۃ اللہ۔‘‘[1] خالد رضی اللہ عنہ نے شام روانہ ہونے کی تیاری مکمل کی اور فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ نصف کو اپنے ساتھ شام لے کر جانے کے لیے اور نصف عراق میں مثنیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ باقی رہنے کے لیے۔ البتہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے حصہ میں رکھا۔ مثنیٰ رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا اور فرمایا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فرمان پر جب تک مکمل عمل نہیں ہوگا میں راضی نہیں۔ نصف صحابہ کو اپنے ساتھ لے جائیں اور نصف کو ہمارے ساتھ چھوڑیں، واللہ انہی کے ذریعہ سے تو ہمیں فتح ونصرت کی امید ہے۔ تو آپ مجھے ان سے محروم نہ کریں۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا خط خالد رضی اللہ عنہ کو سفر کرنے سے قبل موصول ہوا، جس کے اندر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم فرمایا تھا کہ کس کو اپنے ساتھ لے جائیں اور کس کو مثنیٰ کے لیے چھوڑ جائیں۔ فرمایا: ’’اے خالد! جس طرح تم اپنے ساتھ مجد و بزرگی کے حاملین کو لے جاؤ ان کے لیے بھی مجد و بزرگی کے حاملین کو چھوڑ جاؤ اور جب اللہ تعالیٰ شام میں تمہیں فتح عطا کر دے تو تم انہیں واپس عراق لوٹا دو اور تم بھی ان کے ساتھ ہو لو، پھر تم اپنے کام پر لگ جاؤ۔ ‘‘[2] اس طرح خالد رضی اللہ عنہ ، مثنیٰ رضی اللہ عنہ کو راضی کرنے میں برابر لگے رہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے عوض انہیں بہادر جنگجوؤں کو دیتے رہے جو شجاعت وصبر میں معروف تھے، آخرکار مثنیٰ رضی اللہ عنہ راضی ہو گئے۔[3] خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکر کو جمع کیا اور خطرناک، لق ودق اور طویل و عریض صحرا کو پار کرتے ہوئے شام کی طرف چل پڑے، راستہ کے ماہرین سے دریافت کیا: وہ کون سا راستہ اختیار کیا جائے کہ ہم رومی افواج کے پیچھے سے گذر جائیں؟ کیونکہ اگر ہمارا ان سے سامنا ہو گیا تو پھر ہم مسلمانوں کی مدد کے لیے نہیں پہنچ سکیں گے۔ انہوں نے بتلایا کہ ہمیں صرف ایک ہی راستہ معلوم ہے، فوج اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ تنہا مسافر کو بھی اپنی جان کا خطرہ رہتا ہے۔ آپ یہ راستہ گھوڑوں اور ساز وسامان کے ساتھ پار نہیں کر سکتے۔ پانچ راتوں تک پانی کا نام ونشان نہیں۔ خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے لیے ضروری ہے کہ رومی فوج کے پیچھے سے نکلیں اور پھر آپ نے اس راستہ کو اختیار کرنے کا عزم کر لیا، خطرات جیسے بھی ہوں۔ اس موقع پر رافع بن عمیر نے مشورہ دیا: خوب زیادہ پانی اپنے ساتھ لے لیں کیونکہ اس راستہ میں پانی نہیں۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ پیاسے اونٹوں کے شکم میں پانی بھر لیں اور اونٹوں کے ہوٹ کاٹ دیں تاکہ جگالی کرکے پانی ختم نہ کر دیں۔[4] اور اپنے ساتھیوں کو نصیحت کی کہ مسلمان کے لیے یہ مناسب نہیں کہ اللہ کی مدد کے ہوتے ہوئے کسی چیز کی پروا کرے۔ [5] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |