Maktaba Wahhabi

428 - 512
خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: ((عند الصباح یحمد القوم السری)) [1] ’’رات کے وقت چلنے والوں کی صبح کے وقت تعریف کی جاتی ہے۔‘‘ اسے سب سے پہلے خالد رضی اللہ عنہ نے کہا تھا جو بعد میں ضرب مثل کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ اس سفر سے متعلق ایک شخص نے کیا خوب کہا ہے: للّٰہ درُّ رافع أنّٰی اہتدیٰ فَوَّزَ مِنْ قَرَاقِرٍ إِلی سُوَیٰ ’’رافع جاسوس کے کیا کہنے، اس نے کس طرح قراقر سے سویٰ تک راہ پائی۔‘‘ خمسًا اذا ما سَارَہا الجیشُ بَکٰی ما سَارَہا قَبْلَکَ إِنسیٌّ یُدیٰ[2] ’’پانچ دن میں جب فوج چل چل کے رو پڑی، میرے خیال میں تم سے قبل کوئی انسان اس صحرا میں نہ چلا تھا۔‘‘ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ جیسا تجربہ کار کمانڈر خطرات کی پروا نہیں کرتا۔ آپ نے صحرائی راستہ کو طے کرنے کے لیے پانی حاصل کرنے کے اسباب اختیار کیے اور اپنے مقصود کو پہنچ گئے اور لشکر خالد پانچویں دن مقام سویٰ پر پہنچ گیا، جو شام کی پہلی سرحد ہے اور رومی افواج کو پیچھے چھوڑ دیا، پانچ دن کے اندر صحرا کو طے کر لینا ایک عجوبہ تھا جب کہ یہ راستہ عجیب وغریب خطرات سے پر تھا لیکن خالد رضی اللہ عنہ کے ارادہ وایمان اور عزم و اقدام نے اسے آسان بنا دیا۔[3] خالد رضی اللہ عنہ شام کی ابتدائی حدود ’’اَدک‘‘ پہنچے، اس پر حملہ کر کے محاصرہ کر لیا، بذریعہ مصالحت اس کو آزاد کرا لیا، پھر تدمر کا رخ کیا، وہاں کے لوگ قلعہ بند ہو گئے، پھر امان کا مطالبہ کیا۔ آپ نے ان سے بھی مصالحت کر لی پھر وہاں سے روانہ ہو کر قریتین پہنچے اور ان سے قتال کیا اور فتح حاصل کی پھر حوارین کا رخ کیا اور ثنیہ کے مقام پر پہنچے اور وہاں اپنا پرچم لہرایا۔ یہ پرچم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا جس کا نام عقاب تھا۔ جس وجہ سے اس جگہ کا نام ’’ثنیۃ العقاب‘‘ پڑ گیا۔[4] اور جب عذراء سے آپ کا گذر ہوا تو اس کو زیر کیا اور غسان کا بہت سا مال غنیمت حاصل کیا اور دمشق کے مشرق سے نکلے اور بصریٰ پہنچ گئے۔ صحابہ کرام وہاں جنگ میں مصروف تھے، بصریٰ کے حاکم نے مصالحت کر لی اور شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ الحمد للہ یہ پہلا شہر تھا جسے شام میں مسلمانوں
Flag Counter