Maktaba Wahhabi

422 - 512
’’ہماری موت سے قبل مصیبت مقدر ہو چکی ہے، جو کسی صورت میں ہٹنے والی نہیں۔‘‘ اسی حالت میں ایک شہسوار اس کی طرف بڑھا اور اس کی گردن اڑا دی اور اس کا سر پیالے میں جا گرا، ہم نے اس کی بیوی اور بچیوں کو لے لیا اور اس کے بچوں کو قتل کر دیا۔[1] اس معرکہ میں دو ایسے آدمی قتل کر دیے گئے جو اسلام لا چکے تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں امان دے رکھی تھی لیکن مسلمانوں کو اس کا علم نہ تھا۔ جب ان کی خبر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے ان کی دیت ادا کی اور ان کی اولاد سے متعلق وصیت کی اور ان دونوں کے بارے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان لوگوں کا انجام یہی ہوتا ہے جو دار الحرب میں بستے ہیں۔ یعنی مشرکین کے ساتھ رہنے کی وجہ سے جرم ان کا ہے۔[2] ۱۱۔ معرکہ فِراض:… جب خالد رضی اللہ عنہ نے پرچم اسلام عراق پر لہرا دیا اور عرب قبائل آپ کے تابع ہو گئے تو آپ نے فراض کا قصد کیا، جو شام، عراق اور جزیرہ کی سرحد پر ہے تاکہ اپنی پشت کو محفوظ کر لیں اور جب سر زمین سواد کو پار کر کے فارس کا رخ کریں تو پیچھے کوئی خطرہ باقی نہ رہے لیکن جب اسلامی افواج فراض میں جمع ہوئیں، تو رومیوں کو غصہ آیا اور آپے سے باہر ہو گئے اور اپنے سے قریب فارسی افواج سے مدد طلب کی۔ چونکہ مسلمانوں نے فارسیوں کی شان وشوکت کو ختم کر دیا تھا اور وہ ذلیل وخوار ہوئے تھے، اس لیے وہ مسلمانوں پر جلے بھنے تھے، انہوں نے فوراً رومیوں کی دعوت قبول کی، اور ان کی مدد کے لیے تیار ہو گئے۔ اسی طرح رومیوں نے تغلب، ایاد اور نمر قبائل عرب سے مدد طلب کی، انہوں نے بھی ان کی دعوت پر لبیک کہا کیونکہ وہ اپنے رؤساء اورسرداروں کے قتل کو ابھی بھولے نہیں تھے۔ اس طرح اس معرکہ میں روم، فارس اور عرب کی افواج مسلمانوں کے خلاف جمع ہو گئیں اور جب یہ لوگ فرات کے ساحل پر پہنچے تو مسلمانوں سے کہا: یا تو تم دریا پار کر کے ہمارے پاس آؤ یا ہم آتے ہیں؟ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہی پار کرکے آؤ۔ انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ لوگ ذرا یہاں سے ہٹ جائیں تاکہ ہم دریا پار کر لیں۔ خالد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ایسا نہیں ہو سکتا لیکن تم دریاپار کر کے ہم سے نیچے علاقہ میں آؤ۔ یہ واقعہ ۱۵ ذوالقعدہ ۱۲ ہجری میں پیش آیا۔ رومیوں اور فارسیوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا: اپنے ملک کو بچاؤ، یہ شخص دین کی بنیاد پر لڑتا ہے اور عقل وعلم رکھتا ہے۔ واللہ یہ ضرور غالب آئے گا اور ہم ضرور رسوا ہوں گے۔ پھر انہوں نے اس سے عبرت حاصل نہ کی اور دریا پار کر کے خالد رضی اللہ عنہ سے نچلے حصہ میں آگئے۔ جب سب آگئے تو رومیوں نے کہا: الگ الگ ہو جاؤ تاکہ آج ہمیں معلوم ہو جائے کہ کیا اچھا اور کیا برا ہے
Flag Counter