اور کہاں سے خطرہ ہے؟ چنانچہ ایسا ہی کیا اور پھر گھمسان کی جنگ ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے رومیوں کو شکست دی۔ خالد رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں سے کہا: ان پر ٹوٹ پڑو، ان کو مہلت نہ دو۔ شہسوار اپنے ساتھیوں کے نیزوں سے دشمن کی ایک ایک جماعت جمع کرتا، جب جمع ہو جاتے تو مسلمان انہیں قتل کر دیتے۔ اس طرح اس معرکہ میں ایک لاکھ افراد قتل ہوئے اور خالد رضی اللہ عنہ نے فراض میں دس روز قیام کیا اور پھر اسلامی افواج کو حیرہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔[1] اس طرح مسلمانوں نے پہلی مرتبہ روم وایران جیسی دونوں سپر طاقتوں (Super Power) اور ان کی ہم نوا عرب افواج کا مقابلہ کیا، اس کے باوجود مسلمانوں کو زبردست فتح حاصل ہوئی اور بلاشبہ یہ معرکہ تاریخی اور فیصلہ کن معرکوں میں سے رہا، اگرچہ اس کو وہ شہرت حاصل نہ ہوئی، جو دیگر بڑے معرکوں کو حاصل ہوئی، کیونکہ اس سے کفار کی اندرونی قوت ختم ہو گئی۔ خواہ وہ ایران سے تعلق رکھتے رہے ہوں یا روم سے یا عرب اور عراق سے۔ عراق میں خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے جو معرکے سر کیے یہ اس کی آخری کڑی تھی۔[2] اس معرکہ کے بعد ایرانیوں کی شان وشوکت خاک میں مل گئی پھر اس کے بعد ان کو وہ ایسی جنگی قوت حاصل نہ ہو سکی، جس سے مسلمان خوف زدہ ہوں۔[3] اس معرکہ کے سلسلہ میں قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: لَقِیْنا بِالفِراضِ جموعَ رومٍ وفُرْسٍ غَمَّہا طولُ السَّلام ’’ہم فراض میں روم وفارس کی افواج سے ٹکرائے جو اسلام کے بڑھنے سے پریشان تھے۔‘‘ اَبَدْنَا جَمْعَہُمْ لَمَّا الْتَقَیْنَا وَبَیَّتْنَا بِجَمْعٍ بنی رزام ’’جب ہم ان سے ٹکرائے تو ہم نے ان کی افواج کو ہلاک کر دیا اور ہم نے بنو رزام پر شب خون مارے۔‘‘ فما فَتِئَتْ جُنُودُ السِّلمِ حَتّٰی رَأَیْنَا الْقَوْمَ کَالْغَنَمِ السَّوام[4] ’’اسلامی افواج برابر ڈٹی رہیں یہاں تک کہ ہم نے دشمن کو چرنے والی بکریوں کے مانند پایا۔‘‘ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |