یہاں سے حرکت نہ کی بلکہ وہاں مرابط بن کر ڈٹے رہے اور خالد رضی اللہ عنہ کے وہاں پہنچے کا انتظار کیا اگر دومۃ الجندل مسلمانوں کے قبضہ میں نہ آتا تو عراق میں مسلم افواج کے لیے خطرات کا سامنا تھا۔[1] اس طرح خالد رضی اللہ عنہ دومۃ الجندل کی فتح میں عیاض رضی اللہ عنہ کی مدد کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں جنوبی عراق میں خالد رضی اللہ عنہ کی جنگیں، جلد حملہ آور ہونے میں مہارت، موقع کو غنیمت سمجھنے اور دشمن کے دل میں رعب بٹھانے کے سلسلہ میں مثالی حیثیت کی حامل ہیں، وہیں عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کا طویل مدت تک دشمن کے سامنے ڈٹے رہنا جبکہ دشمن ہر جانب سے ٹوٹ پڑا ہو، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلامی فوج صبر وثبات، اخروی بھلائی کی امید اور اللہ کی نصرت و تائید پر اعتماد و بھروسہ سے متصف تھی اور یہ چیز ان کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ عیاض رضی اللہ عنہ افاضل مہاجرین اور سادات قریش میں سے تھے۔ بڑے سخی اور فیاض تھے۔ خلفاء اور ان کے والیان کو ان پر پورا اعتماد تھا، وہ یرموک کے قائدین میں سے تھے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی فوج کے مقدمہ پر مقرر تھے، اس کے بعد آپ نے مکمل جزیرہ کو فتح کیا جو شام و عراق کے مابین واقع ہے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ان کو شام پر اپنا نائب مقرر کیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو اس عہدہ پر باقی رکھا۔ یہاں تک کہ فتوحات کے سلسلہ میں آپ کی ضرورت پیش آئی تو ان فتوحات کے لیے آپ کو روانہ کیا۔[2] ۹۔ حُصَید کا معرکہ: [3]… خالد رضی اللہ عنہ نے اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کو انبار واپس ہو جانے کا حکم دے دیا اور خود دومۃ الجندل میں ٹھہر گئے۔ آپ کے وہاں ٹھہر جانے کی وجہ سے فارسیوں کے اندر آپ کے بارے میں غلط خیالات نے جنم لیا اور طمع پیدا ہوئی اور اسی طرح اس علاقہ کے عربوں نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے فارسیوں سے سازباز کی اور خط کتابت شروع کر دی تاکہ وہ بھی ان کے ساتھ خالد پر غضبناک ہوں کیونکہ ابھی عقہ کے قتل کا زخم تازہ تھا چنانچہ ’’روزمہر‘‘ اپنے ساتھ ’’روزبہ‘‘ کو لے کر بغداد سے انبار کی طرف روانہ ہوا اور حصید وخنافس میں جمع ہونا طے کیا۔ یہ خبرزبرقان بن بدر کو پہنچی جو اس وقت انبار پر مقرر تھے، انہوں نے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ سے امداد طلب کی جو حیرہ پر خالد رضی اللہ عنہ کے نائب تھے۔ چنانچہ انہوں نے اعبد بن فد کی سعدی ابولیلیٰ کو ان کی امداد کے لیے روانہ کیا اور انہیں حصید پہنچنے کا حکم دیا اور اسی طرح عروہ بن جعد البارقی کو روانہ کیا اور انہیں خنافس پہنچنے کا حکم دیا۔ جب خالد رضی اللہ عنہ کو بعض قبائل کے حرکت میں آنے اور حصید میں روزبہ کے ساتھ مل جانے کی رغبت کی خبر ملی تو آپ نے قعقاع رضی اللہ عنہ کو حصید میں امیر مقرر کیا اور حیرہ میں ان کی جگہ عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ ادھر جب روزبہ کو قعقاع رضی اللہ عنہ کے اس کی طرف روانہ ہونے کی خبر ملی تو اس نے روزمہر سے مدد مانگی، وہ آکر اس کے ساتھ شامل ہو گیا اور پھر اسلامی افواج فارسیوں سے ٹکرائیں اور عظیم جنگ ہوئی، دشمن کے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |