اکیدر بن عبدالملک اور دوسرا جودی بن ربیعہ۔ ان دونوں کے درمیان اختلاف ہو گیا۔ اکیدر نے کہا: میں خالد کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ اس سے بڑھ کر مبارک شگون والا نہیں اور نہ جنگ میں کوئی اس سے آگے ہے۔ خالد کا چہرہ دیکھ کر افواج شکست کھا جاتی ہیں، زیادہ ہوں یا کم۔ لہٰذا تم میری بات مانو اور خالد سے مصالحت کرلو۔ لیکن لوگوں نے اکیدر کی بات نہ مانی، تو اس نے کہا: میں خالد کے مقابلہ میں تمہارا ساتھ ہرگز نہ دوں گا، تم جانو۔[1] خالد رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آپ کے دشمن کی شہادت ہے، اور حق تو وہ ہے جس کی شہادت دشمن دے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اکیدر کی طرف روانہ کیا تھا آپ اس کو قید کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان کر کے چھوڑ دیا تھا اور اس سے معاہدہ لکھوا لیا تھا لیکن اس نے اس کے بعد بدعہدی کی۔ جس وقت خالد رضی اللہ عنہ نے اس کو قید کیا تھا، اسی وقت سے وہ آپ سے مرعوب ہو گیا چنانچہ اکیدر اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ کر نکل گیا۔ خالد رضی اللہ عنہ کو دومۃ الجندل کے راستہ میں اس کی خبر ملی، آپ نے عاصم بن عمرو کو اس کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ کیا۔ انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اس کی سابقہ خیانت کی وجہ سے خالد رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا اور اس کو قتل کر دیا گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی خیانت وغداری کی وجہ سے اسے ہلاک کیا اور تدبیر تقدیر سے نہ بچا سکی۔[2] خالد رضی اللہ عنہ نے دومۃ الجندل پہنچ کر باشندگان دومۃ الجندل اور ان کے حامی بہراء، کلب اور تنوخ کو اپنے گھیرے میں لے لیا، ایک طرف آپ کی فوج اور دوسری طرف عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کی فوج۔[3] جودی بن ربیعہ اپنی فوج کے ساتھ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا اور ابن حدرجان اور ابن ابہم اپنی اپنی فوج کے ساتھ عیاض رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے۔ جنگ کا آغاز ہوا، خالد رضی اللہ عنہ نے جودی اور اس کی افواج کو شکست دے دی اور عیاض رضی اللہ عنہ نے ابن حدرجان اور اس کی فوج سے بمشکل فتح کو چھین لیا۔ شکست خوردہ لوگوں نے بھاگ کر قلعہ میں پناہ لینی چاہی لیکن قلعہ پہلے سے بھر چکا تھا، اس میں جگہ نہ تھی، اندر والوں نے دروازے بند کر لیے اور اپنے ساتھیوں کو باہر میدان میں چھوڑ دیا، خالد رضی اللہ عنہ قلعہ کا دروازہ اکھاڑ کر اس میں گھس گئے اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا۔[4] اس طرح دومۃ الجندل کے فتح ہونے سے مسلمانوں کو جنگی اعتبار سے بڑا اہم مقام حاصل ہو گیا کیونکہ دومۃ الجندل ایسے راستہ پر واقع ہے، جہاں سے تین سمتوں میں اہم راستہ نکلتے ہیں۔ جنوب میں جزیرہ نمائے عرب اور شمال مشرق میں عراق اور شمال مغرب میں شام۔ طبعی طور پر یہ شہر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کی فوج کی توجہ اور اہتمام کا مستحق تھا، جو عراق میں برسر پیکار تھی اور شام کی سرحدوں پر کھڑی تھی اور یہی سبب تھا کہ عیاض رضی اللہ عنہ نے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |