Maktaba Wahhabi

415 - 512
بعض معاصر مؤلفین نے اس کا انکار کیا ہے اور اسے بعض راویوں کی طرف سے من گھڑت قرار دیا ہے حالانکہ یہ روایت اسناد کے اعتبار سے ثابت ہے۔ طبری، ابن سعد، ابن کثیر اور ابن تیمیہ علیہما السلام نے اس کو پسند کیا ہے۔ کسی نے اس کی سند کو ضعیف نہیں قرار دیا ہے، اور یہ لوگ اسلامی تاریخ کے بارے میں معاصر مولفین کے مقابلہ میں زیادہ علم والے اور انصاف پسند تھے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے جس وقت زہر پیا اس وقت ایمان ویقین کی انتہائی بلند چوٹی پر فائز تھے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اس کے اندر خصائص ودیعت کیے ہیں اور وہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جب چاہے ان خصائص کی تاثیر کو بلند مقاصد اور عظیم حکمت کے پیش نظر ختم کر دے۔ جس طرح جب ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تو اس کی تاثیر کو ختم کر دیا اور اس آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی والی بنا دیا۔ ایسا انبیائے کرام علیہم السلام کے علاوہ لوگوں کے لیے بھی واقع ہوا جیسا کہ ابو مسلم خولانی نے جب اسود عنسی کذاب کی نبوت کا اقرار کرنے سے انکار کر دیا تو اس نے ان کو آگ میں جھونک دیا لیکن اس نے دیکھا کہ آپ آگ میں کھڑے ہو کر نماز میں مصروف ہیں۔ آگ آپ کو کچھ نقصان نہ پہنچا سکی۔[1] یہاں یہ یاد رہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے جس وقت زہر پیا اس وقت آپ کے دل میں ذرا بھی ریا کاری، شہرت طلبی اور طلب جاہ وغیرہ خواہشات نفس کا گذر نہ تھا کیونکہ اگر ایسی کوئی نیت ہوتی تو آپ کو یہ پتہ تھا کہ اس حالت میں اللہ تعالیٰ ساتھ چھوڑ دے گا اور پھر زہر کے اثر کو ختم کرنے کی ان کے پاس کوئی قوت وصلاحیت نہیں ہے۔ یہ ایک نادر تجربہ تھا، اب کسی مسلمان سے اس کا تجربہ کرنے کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا اگرچہ اس کا وہی مقصد ہو جو خالد رضی اللہ عنہ کا تھا کیونکہ خالد رضی اللہ عنہ کا یقین وایمان اور اللہ پر بھروسہ جس معیار کا تھا وہ آج نادر الوجود ہے۔[2] خالد رضی اللہ عنہ نے جس وقت حیرہ کو فتح کیا، آٹھ رکعت ایک سلام کے ساتھ نماز ادا کی۔[3] فتوحات عراق سے متعلق عربي ادب:… فتح حیرہ سے متعلق قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے قصیدہ کہا، جس کے چند اشعار یہ ہیں: سقی اللہ قتلی بالفرات مقیمۃً واخری بأثباج النجاف الکوانف ’’اللہ تعالیٰ ان مقتولین (شہیدوں) کو سیراب کرے جو فرات میں مقیم ہیں اور دوسروں کو بھی جو نجاف کے درمیان محفوظ علاقہ میں ہیں۔‘‘
Flag Counter