Maktaba Wahhabi

414 - 512
موت سے ایسے ہی محبت کرتی ہے جس طرح تم زندگی سے محبت رکھتے ہو اور آخرت میں اتنی ہی رغبت رکھتے ہیں جتنی رغبت تمہیں دنیا سے ہے۔‘‘[1] حیرہ کی فتح سے عراق کو فتح کرنے اور اس کو اسلامی سلطنت کے تابع کرنے سے متعلق ابوبکر رضی اللہ عنہ کی آرزوؤں کا نصف حصہ پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، جو ایران پر براہ راست حملہ آور ہونے کی تمہید تھی۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری اچھے طریقہ سے ادا کی اور تھوڑی ہی مدت میں حیرہ تک پہنچ گئے کیونکہ عراق کے خلاف آپ کی مہم کا آغاز محرم ۱۲ہجری میں معرکہ کاظمہ سے ہوا اور اسی سال ربیع الاوّل ۱۲ہجری میں حیرہ فتح ہو گیا۔[2] فتح حیرہ کے موقع پر خالد رضی اللہ عنہ کي کرامت:… امام طبری نے اپنی سند سے نقل کیا ہے ’’……ابن بُقَیلہ (عمرو بن عبدالمسیح) کے ساتھ اس کا ایک خادم تھا۔ اس کی کمر میں اس نے ایک تھیلا لٹکا رکھا تھا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے اس تھیلے کو لے لیا اور اس میں جو کچھ تھا اس کو اپنی ہتھیلی پر رکھا۔ پھر فرمایا: عمرو! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: اللہ کی امانت کی قسم، یہ فوری اثر انداز ہونے والا زہر ہے۔ فرمایا: زہر چھپانے کا کیا مقصد؟ اس نے کہا: مجھے ڈر پیدا ہوا کہ اگر آپ لوگوں کو اپنے اندازے کے خلاف پاؤں اور ایسی صورت میں قوم اور بستی والوں کو میری وجہ سے کسی ناخوشگوار حالات کا سامنا کرنا پڑے تو اس وقت میری موت مجھے زیادہ محبوب ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کوئی نفس اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کی موت کا وقت نہ آجائے، اور فرمایا: ((بسم اللہ خیر الاسماء رب الارض، ورب السماء، الذی لیس یضر مع اسمہ داء، الرحمن الرحیم۔)) ’’شروع اللہ کے نام سے جو بہترین ناموں والا ہے، آسمان و زمین کا رب ہے، جس کے نام کے ساتھ کوئی بیماری نقصان نہیں پہنچا سکتی، وہ رحمن ورحیم ہے۔‘‘ لوگ آگے بڑھے، آپ کو روکنا چاہا لیکن اس سے پہلے ہی آپ زہر نگل چکے تھے۔ اس موقع پر عمرو بن عبدالمسیح نے کہا: واللہ اے عرب کے لوگو! تم اپنے ارادوں کے مطابق مالک بن کے رہو گے اگر تم میں سے ایک فرد بھی موجود ہے۔ پھر حیرہ والوں کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: آج کی طرح واضح و روشن دن میں نے نہیں دیکھا۔[3] حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو ذکر کیا ہے اور اس کو ضعیف قرار نہیں دیا۔[4] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کو ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور ابن سعد نے دوسری سندوں سے ذکر کیا ہے اور ضعیف نہیں قرار دیا ہے[5] اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کو کرامات کی مثال میں ذکر کیا ہے۔[6]
Flag Counter