حفاظت کی ضرورت نہیں تو ان پر کوئی جزیہ نہیں، یہاں تک کہ ان کی حفاظت کی جائے اگر انہوں نے اپنے کسی فعل یا قول کے ذریعہ سے غداری کی تو ذمہ ان سے بری ہے۔‘‘ یہ معاہدہ ربیع الاوّل ۱۲ ہجری میں لکھا گیا۔ [1] اور ایک روایت میں ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے حیرہ والوں کو تین امور میں سے کسی ایک کو قبول کرنے کا اختیار دیا: ’’ہمارے دین میں داخل ہو جاؤ، تمہیں وہی حقوق ملیں گے جو ہمارے ہیں اور تم پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو ہم پر ہیں، خواہ یہاں سے منتقل ہو جاؤ یا یہیں مقیم رہو، یا اپنے دین پر باقی رہتے ہوئے جزیہ ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ یا پھر مقابلہ اور قتال۔ اللہ کی قسم! میں ایسے لوگوں کو لایا ہوں جو موت کے اس سے زیادہ حریص ہیں جتنا تم زندگی کے حریص ہو۔‘‘ ان لوگوں نے جزیہ ادا کرنے پر رضا مندی کا اظہار کیا، تو خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم برباد ہو، کفر گمراہ کن میدان ہے، اس کو اختیار کرنے والا عربوں میں سب سے بڑا احمق ہے۔[2] خالد رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے بعض ایمانی صفات واضح ہوتی ہیں، جو عراق کو فتح کرنے والی اسلامی فوج کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔ یہ فوج انتہائی بلند ترین مقاصد کے لیے حرکت کر رہی تھی اور وہ مقصد لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا اور انسانیت کو ہدایت کی تبلیغ کرنا تھا۔ ممالک میں وسعت، اپنا قبضہ جمانا اور دنیاوی زندگی سے لطف اندوز ہونا مقصود نہ تھا۔ اسی طرح خالد رضی اللہ عنہ نے یہ واضح فرمایا کہ ان جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا اہم سبب شہادت کی طلب اور آخرت میں اللہ کی نعمتوں اور اس کی رضا کی تلاش کا انتہائی درجہ حریص ہونا تھا۔ مذکورہ عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو نافذ کرنے کے انتہائی حریص تھے۔ انسانوں کی ہدایت کی دلی رغبت ان کے اندر پائی جاتی تھی چنانچہ خالد رضی اللہ عنہ نے جب انہیں کفر پر باقی رہ کر جزیہ ادا کرنے کا اختیار دیا تو ان کی توبیخ فرمائی حالانکہ جزیہ ادا کرنے میں مسلمانوں کے لیے مالی مصلحت تھی لیکن خالد تو اس قوم کے سپوت تھے جن کی نگاہوں میں دنیا کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ انہوں نے آخرت کو دنیا پر ترجیح دے رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے یہ بلند ترین اصول [3] وضع کرتے ہوئے فرمایا تھا: ((لان یہدی اللہ بک رجلا واحدا خیرلک من حمر النعم۔))[4] ’’اگر تمہارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹ سے بہتر ہے۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کے ہدیہ کو قبول فرمایا، جو انہوں نے برضا و رغبت پیش کیا تھا، پھر آپ نے اس خوف سے کہ کہیں اہل ذمہ پر ظلم اور زیادتی نہ ہو جائے، ان کے ساتھ عدل کرتے ہوئے اس ہدیے کو جزیہ شمار کر |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |