Maktaba Wahhabi

407 - 512
طلب گار نہ تھے لیکن وہ اپنے اختلاف اور آپسی جھگڑوں کی وجہ سے دنیا بھی حاصل نہ کر سکے۔ خالد رضی اللہ عنہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آخرت کے طلب گار ہیں، ہم انتہائی بلند مقاصد لے کر اٹھے ہیں اسی کے لیے دعوت دیتے ہیں اور اسی کے لیے جہاد کرتے ہیں۔ بفرض محال اگر ہمارا مقصد یہ نہ ہو اور ہم اس کے لیے جہاد نہ کریں تو عقل کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی معیشت کو درست کرنے کے لیے قتال کریں۔ خالد رضی اللہ عنہ کا یہ ذکر کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ طلب معیشت کو اپنے عظیم مقصد کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں بلکہ آپ نے اسے فرضی حالت میں ذکر کیا ہے گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب عقل کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان سے دنیا کی خاطر قتال کریں تو بھلا ہم آخرت کی خاطر اور اللہ کی رضا کے لیے قتال کیوں نہ کریں۔ اس کلام سے ہمتیں بڑھتی ہیں، عزم پختہ ہوتے ہیں، قلب کو زندگی ملتی اور طاقتیں جوش میں آتی ہیں اور پھر اہل ایمان اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اپنی پوری طاقت وقدرت اور اسباب کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔[1] ایک روایت میں ہے کہ معرکہ ولجہ میں خالد رضی اللہ عنہ نے اہل فارس میں سے ایک ایسے شخص سے مبارزت کی جو ہزار آدمیوں کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے اس کو قتل کر دیا اور جب قتل سے فارغ ہوئے تو اس پر ٹیک لگا لی اور اپنا کھانا منگوایا۔[2] سیف اللہ رضی اللہ عنہ کے اس عظیم تصرف میں فارس کی تذلیل، ان کے جبروت اور کبر وغرور کو توڑنا اور ان کے عزائم کو کمزور کرنا دیکھا جا سکتا ہے۔[3] ۴۔ معرکہ ’’ أُلَّیس‘‘ اور فتح ’’امغیشیا‘‘:… اس معرکہ میں بعض عرب نصاریٰ اہل فارس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف فارسی فوج کے لیے معاون بنے، ان عربوں کا قائد ’’عبدالاسود عجلی‘‘ تھا اور فارسیوں کا قائد ’’جابان‘‘ تھا۔ اس کو بہمن جاذویہ نے یہ حکم دے رکھا تھا کہ مسلمانوں سے اس وقت تک نہ ٹکرائے جب تک وہ پہل نہ کریں اور جب خالد رضی اللہ عنہ کو عرب نصاریٰ اور حیرہ کے قرب وجوار کے عربوں کے جمع ہونے کی خبر ملی، تو آپ ان کی طرف روانہ ہو گئے۔ آپ کی توجہ ان پر حملہ کرنے کی طرف مرکوز تھی، آپ کو عربوں کے ساتھ فارسی فوج کے ضم ہو جانے کی خبر نہ تھی، جب مسلمانوں کی فوج پہنچی تو جابان نے اپنی فوج کو ان پر حملہ آور ہونے کا حکم دے دیا لیکن ان لوگوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو اہمیت نہ دی اور کھانے پر اکٹھے ہو گئے۔ مگر خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو کھانے کا موقع نہ دیا اور گھمسان کی جنگ ہوئی۔ دشمن کی ہمت اس وجہ سے بڑھی کہ ان کو توقع تھی کہ بہمن جاذویہ ایک بہت بڑی فوج کے ساتھ ان سے ملنے والا ہے۔ مسلمان اس گھمسان کی جنگ میں ڈٹے رہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے قسم کھاتے ہوئے کہا: اے اللہ! اگر تو نے ان کی مشکیں ہمارے حوالے کیں تو جو ہمارے قبضہ میں آئے گا اس کو باقی نہیں چھوڑیں گے، جب تک کہ ان کے خون سے ان کی ندیاں نہ بہا دیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے
Flag Counter