۳۔ معرکہ ولجہ:… ’’ مذار‘‘ میں فارسی فوج کی شکست کی خبر کسریٰ کو پہنچی، اس نے ’’اندرزغر‘‘ کی قیادت میں ایک عظیم فوج روانہ کی اور اس کے پیچھے ’’بہمن جاذویہ‘‘ کی قیادت میں دوسری فوج روانہ کی۔ اندرزغر مدائن سے چل کر ’’کسکر‘‘ پہنچا اور وہاں سے ہوتا ہوا ’’ولجہ‘‘ پہنچ گیا۔ ادھر ’’بہمن جاذویہ‘‘ وسط سواد سے ہو کر نکلا اس کا مقصد تھا کہ مسلم فوج کو اپنے اور ’’اندرزغر‘‘ کے درمیان گھیر لے اور راستہ میں بہت سے معاونین اور دہقانوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس طرح فارسی فوج ولجہ میں جمع ہو گئی اور جب اندرزغر کو یہ محسوس ہوا کہ اس کی فوج بہت بڑی ہو گئی ہے تو اس نے خالد رضی اللہ عنہ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب خالد رضی اللہ عنہ کو فارسی فوج کے ’’ولجہ‘‘ میں جمع ہونے کی خبر ملی، اس وقت آپ بصرہ کے قریب ’’ثنی‘‘ کے مقام پر تھے۔ آپ نے مناسب سمجھا کہ بہتر یہ ہے کہ فارسی فوج پر تین جہات سے حملہ کریں تاکہ ان کی جمعیت منتشر ہو جائے اور اس طرح اچانک حملہ سے فارسی فوج پریشانی کا شکار ہو جائے اور پھر آپ اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے تیاری میں لگ گئے اور پیچھے کی دفاعی لائن کو مامون رکھنے کے لیے سوید بن مقرن کو حکم دیا کہ وہ ’’حضیر‘‘ میں کھڑے رہیں اور اپنی فوج لے کر خود ’’ولجہ‘‘ پہنچ گئے، وہاں پہنچ کر اس علاقہ کا مکمل جائزہ لیا، آپ کو پتہ چلا کہ معرکہ کا میدان ہموار اور عمدہ ہے۔ قتال کے لیے مناسب ہے۔ اس میں آزادی سے نقل وحرکت کی جا سکتی ہے۔ آپ فارسی فوج پر تین جہات سے حملہ آور ہونے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ آپ نے اپنے اس منصوبہ کو نافذ کیا، دو دستوں کو پیچھے اور دونوں کناروں سے فارسی فوج پر حملہ کے لیے روانہ کیا۔ معرکہ شروع ہوا، طرفین سے گھمسان کی جنگ ہوئی، خالد رضی اللہ عنہ نے سامنے سے حملہ تیز کر دیا اور مناسب وقت پر گھات میں لگے ہوئے دونوں دستے پیچھے سے فارسی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس طرح دشمن کو شکست فاش کھانا پڑی اور ’’اندرزغر‘‘ اپنے کچھ فوجیوں کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا لیکن سب کے سب راستہ میں پیاس سے مر گئے۔[1] اس کے بعد خالد رضی اللہ عنہ نے اپنی فوج کو خطاب کیا، انہیں بلاد عجم کی طرف رغبت دلائی اور بلاد عرب سے بے رغبتی پر ابھارا، فرمایا: کیا ہم نہیں دیکھتے کہ یہاں انواع و اقسام کے وافر کھانے ہیں؟ اللہ کی قسم! اگر اللہ کی راہ میں جہاد اور اسلام کی طرف دعوت ہم پر فرض نہ ہوتی، صرف معیشت پیش نظر ہوتی تب بھی عقلمندی یہی تھی کہ ہم اس سرزمین کو حاصل کرنے کے لیے قتال کرتے اور بھوک وپیاس کو ان لوگوں کے لیے پیچھے چھوڑ دیتے جو تمہارے ساتھ نکلنے کے لیے تیار نہ ہوئے اور بیٹھے رہے۔ پھر مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کر کے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کیے اور پانچواں حصہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ کیا اور مقاتلین کے اہل وعیال کو گرفتار کیا اور کسانوں پر جزیہ لاگو کیا۔[2] خالد رضی اللہ عنہ کے خطاب میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عرب جاہلیت میں تھے مزید برآں آخرت کے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |