Maktaba Wahhabi

405 - 512
احساس ہوا کہ اس فتح کی برکت سے عدل اور انسانی بھائی چارگی کا نیا عنصر ان کی نگرانی کر رہا ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے مال غنیمت کا خمس ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارسال فرمایا اور باقی مجاہدین کے مابین تقسیم کر دیا۔ جو مال غنیمت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا، اس میں ہرمز کی ایک ٹوپی بھی تھی لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو ان کی اچھی خدمات کے صلے میں اسے ہدیہ میں دے دیا۔[1] اس کی قیمت ایک لاکھ تھی، اس پر جواہر جڑے ہوئے تھے۔ اہل فارس اپنی ٹوپیاں خاندان میں شرف ومقام کے اعتبار سے رکھتے تھے، جو شرف ومنزلت میں کمال کو پہنچ چکا ہو اس کی ٹوپی کی قیمت ایک لاکھ ہوتی تھی اور ہرمز ان لوگوں میں سے تھا جو اہل فارس کے نزدیک شرف ومنزلت میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔[2] ۲۔ معرکہ مذار (ثني):… ہرمز نے خالد رضی اللہ عنہ کے خط کو کسریٰ کے پاس روانہ کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں کسریٰ نے ہرمز کی مدد کے لیے ’’قارن‘‘ کی قیادت میں ایک فوج روانہ کی تھی لیکن ہرمز نے مسلم فوج کو معمولی سمجھا اور قارن کے پہنچنے سے پہلے ہی مسلمانوں سے ٹکرا گیا پھر تباہی و بربادی اس کی اور اس کی فوج کا مقدر قرار پائی اور شکست خوردہ لوگ بھاگ کر قارن سے جا ملے پھر آپس میں مل کر ایک دوسرے کو مسلمانوں سے قتال پر ابھارا اور مذار کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے مثنیٰ بن حارثہ اور ان کے بھائی معنی کو ان کے پیچھے لگا رکھا تھا، انہوں نے بعض قلعہ فتح کیے اور جب ان دونوں کو فارسی فوج کے آنے کی خبر ملی تو فوراً خالد رضی اللہ عنہ کو باخبر کیا اور خالد رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو فارسی فوج کی طرف کوچ کرنے کی اطلاع دی اور قتال کے لیے مستعد ہو کر روانہ ہوئے تاکہ دشمن اچانک حملہ نہ کر سکے۔ ’’مذار‘‘ کے مقام پر مسلمانوں کی فارسی فوج کے ساتھ مڈبھیڑ ہوئی۔ ذات السلاسل کی شکست کی وجہ سے فارسی فوج غصہ سے بھری ہوئی تھی۔ ان کا قائد ’’قارن‘‘ میدان میں اترا اور خالد رضی اللہ عنہ کو دعوت مبارزت دی۔ خالد رضی اللہ عنہ میدان میں نکلے، لیکن آپ سے پہلے ہی معقل بن اعمش بن نباش نے اس کو قتل کر دیا۔ قارن نے اپنے میمنہ پر ’’قباذ‘‘ اور میسرہ پر ’’انوشجان‘‘ کو مقرر کر رکھا تھا۔ یہ دونوں ان قائدین میں سے تھے جو ذات السلاسل میں شریک تھے اور معرکہ سے فرار اختیار کر لیا تھا۔ ان دونوں کے مقابلہ میں دو مسلم بہادر ڈٹ گئے۔ ’’قباذ‘‘ کو تو عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا اور ’’انوشجان‘‘ کو عاصم بن عمرو تمیمی نے قتل کر دیا اور طرفین سے گھمسان کی جنگ ہوئی اور فارسی فوج اپنے قائدین کے قتل کے بعد شکست خوردہ ہو گئی، ان میں سے تیس ہزار قتل ہوئے اور باقی کشتیوں پر سوار ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے اور پانی کی وجہ سے مسلمان ان کا پیچھا نہ کر سکے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے مذار میں ٹھہر کر فارسی فوج سے چھینا ہوا سامان چھیننے والوں کے حوالے کر دیا، اور مال غنیمت تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس معرکہ میں اچھی کارکردگی دکھائی تھی ان کو خمس میں سے عطا کیا اور باقی خمس مدینہ روانہ کر دیا۔[3]
Flag Counter