Maktaba Wahhabi

404 - 512
مسلمانوں نے اپنے سامان سواریوں سے اتارے، شہسوار کھڑے رہے اور پیادہ آگے بڑھے، پھر کفار پر ٹوٹ پڑے۔ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے مسلمانوں پر احسان کیا، بدلی آئی اور مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے بارش ہوئی۔ مسلمانوں نے پانی پیا اور اس سے مسلمانوں کو قوت ملی۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں جو اہل ایمان اور اولیائے کرام کے ساتھ اللہ کی معیت اور نصرت و امداد پر شاہد ہیں۔ مسلمانوں نے ہرمز سے مقابلہ کیا۔ اس کی خباثت مشہور تھی۔ ضرب المثل کے طور پر اس کی خباثت بیان کی جاتی تھی۔ خالد رضی اللہ عنہ کے لیے اس نے ایک سازش تیار کی۔ اپنے دفاعی دستہ سے کہا کہ وہ خالد کو مبارزت کی دعوت دیتا ہے اور یہ لوگ اچانک چپکے سے خالد پر حملہ کر دیں، پھر وہ خود دونوں افواج کے درمیان نکلا اور خالد رضی اللہ عنہ کو دعوت مبارزت دی۔ خالد رضی اللہ عنہ نے ہرمز کو بھینچ لیا۔ ہرمز کے دفاعی دستہ نے خالد رضی اللہ عنہ پر اچانک حملہ کر دیا اور انہیں گھیرے میں لے لیا۔ لیکن اس کے باوجود خالد رضی اللہ عنہ نے ہرمز کو قتل کر دیا۔ ادھر قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے جیسے ہی یہ خیانت دیکھی شہسواروں کی ایک جماعت کے ساتھ ہرمز کے دفاعی دستے پر ٹوٹ پڑے اور ان سب کو موت کی نیند سلا دیا۔[1] اور مسلم فوج قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پیچھے دشمن پر ٹوٹ پڑی اور فارسی فوج کو شکست فاش دی۔ یہ پہلا معرکہ تھا جس میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فراست صادق آئی جو قعقاع رضی اللہ عنہ سے متعلق فرمایا تھا: وہ فوج شکست نہیں کھا سکتی جس میں ان جیسے لوگ ہوں۔[2] خالد رضی اللہ عنہ نے بہادری اور جرأت مندی کی بہترین مثال قائم کی۔ آپ نے فارس کے قائد ہرمز کا قصہ تمام کر دیا، اس کی فوج اس کو آپ سے نہ بچا سکی اور پھر ان سے تنہا لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ قعقاع رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچے اور ان سب کا معاملہ تمام کیا۔ فارسیوں نے اپنے آپ کو زنجیروں میں باندھ رکھا تھا تاکہ میدان جنگ سے فرار نہ اختیار کریں۔ لیکن بہادر شیروں کے سامنے کچھ کام نہ آیا چنانچہ زنجیروں سے اپنے آپ کو باندھنے کی وجہ سے اس معرکہ کو ذات السلاسل کا نام دیا گیا۔[3] مسلمانوں کو اس معرکہ میں ہزار اونٹوں کے بوجھ برابر مال غنیمت ملا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے حیرہ کے اطراف کے قلعوں کو فتح کرنے کے لیے فوجی دستے روانہ کیے، خوب مال غنیمت حاصل ہوا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے ان کسانوں سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جو آپ سے قتال کے لیے نہیں نکلے تھے۔ بلکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اور ان کو ان کی زمینوں پر باقی رکھا کہ وہ اس کی کاشت کریں اور غلہ پیدا کریں اور انہیں ان کے عمل کا صلہ عطا کیا۔ جو لوگ اسلام میں داخل ہو گئے ان کے لیے زکوٰۃ کا نصاب متعین کر دیا اور جو اپنے دین پر باقی رہے ان پر جزیہ عائد کیا۔ یہ اس سے کہیں کم تھا جو فارسی مالکان ان سے وصول کیا کرتے تھے۔ فارسی مالکان سے زمین نہیں چھینی لیکن ان زمینوں میں کام کرنے والوں کے ساتھ انصاف کیا۔ اس طرح لوگوں کو اس بات کا
Flag Counter