کے ساتھ جہاد کے لیے افواج تھیں، وہ امراء یہ تھے: مذعور بن عدی عجلی، سلمی بن قین تمیمی اور حرملہ بن مریطہ تمیمی۔ ان تینوں نے آپ کی بات مان لی اور اپنی افواج لے کر آپ کے ساتھ ضم ہو گئے۔ ان کی تعداد مثنیٰ رضی اللہ عنہ کی فوج کے ساتھ آٹھ ہزار تھی۔ اس طرح مسلمانوں کی فوج کی کل تعداد اٹھارہ ہزار ہو گئی۔[1] سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ سب ’’ابلہ‘‘ کے مقام پر جمع ہوں گے۔[2] عراق کی طرف روانہ ہونے سے قبل خالد رضی اللہ عنہ نے ہرمز کو انذار نامہ (Warning ) ارسال کیا، فرمایا: ’’اما بعد! اسلام قبول کر لو سلامت رہو گے یا اپنے اور اپنی قوم کے لیے امان کا معاہدہ کر لو اور جزیہ ادا کرنے کا اقرار کر لو، ورنہ پھر اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرنا۔ میں ایسے لوگوں کو لے کر تمہارے پاس آیا ہوں جنہیں موت اتنی ہی محبوب ہے جتنی محبوب تمہیں زندگی ہے۔‘‘[3] آپ نے یہ اسلوب اختیار کیا جو ایک نفسیاتی جنگ ہے تاکہ ہرمز اور اس کے لشکر کے دلوں میں خوف و رعب طاری کر دیں اور ان کی قوت کو کمزور اور ان کی عزیمت میں ضعف پیدا کر دیں۔ جب خالد رضی اللہ عنہ دشمن کے قریب پہنچے تو فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا اور حکم فرمایا کہ ہر حصہ الگ الگ راستہ سے روانہ ہو۔ ایک ہی راستہ پر سب کو نہیں رکھا تاکہ جنگ کے اصولوں میں سے اہم ترین اصول فوجی دستوں کو مامون ومحفوظ رکھنے پر عمل ہو۔ پہلے دستہ پر مثنیٰ بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے دستہ پر عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ کو متعین کیا اور ان دونوں کے بعد خالد رضی اللہ عنہ خود روانہ ہوئے، اور ان دونوں سے ’’حضیر‘‘[4] پر ملنے کا وعدہ کیا تاکہ وہاں جمع ہو کر دشمن کے سامنے ڈٹ جائیں۔[5] ۱۔ معرکہ ذات السلاسل:… ہرمز کو جب خالد رضی اللہ عنہ کے روانہ ہونے کی خبر ملی اور اسے معلوم ہوا کہ مسلمانوں نے حضیر کے مقام پر جمع ہونے کو طے کیا ہے تو وہ ان سے پہلے وہاں پہنچ گیا اور اپنے ہراول پر دو قائدین قباذ اور انوشجان کو مقرر کیا اور جب خالد رضی اللہ عنہ کو یہ اطلاع ملی کہ دشمن حضیر کا رخ کر چکا ہے تو آپ حضیر کے بجائے کاظمہ کی طرف مڑ گئے، وہاں بھی ہرمز پہلے پہنچ گیا، پانی پر قبضہ کر لیا اور اپنی فوج کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کر لیا اور جب خالد رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو ایسی جگہ اترنا پڑا جہاں پانی نہ تھا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: اپنے سامان اتارو اور پھر ان سے لڑکر پانی پر قابض ہو جاؤ، قسم ہے! پانی ان کو ملے گا جو دونوں گروہوں میں سب سے زیادہ صبر کرنے والے اور دونوں لشکروں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مکرم ہیں۔[6] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |