أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ (الحجرات: ۱۷) ’’اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ دراصل اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی، اگر تم راست گو ہو۔‘‘ جب یہ لوگ واپس ہوئے طلیحہ ارتداد کا شکار ہوا اور نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا[1] اور سمیراء میں اپنا مرکز بنایا، عوام اس کے مرید ہو گئے اور اس کا معاملہ ظاہر ہو گیا۔ لوگوں کی ضلالت کا پہلا سبب یہ ہوا کہ وہ اپنی قوم کے ساتھ ایک سفر میں تھا، پانی ختم ہو گیا، لوگوں کو شدید پیاس لگی، اس نے لوگوں سے کہا: تم میرے گھوڑے ’’اعلال‘‘ پر سوار ہو کر چند میل جاؤ وہاں تمہیں پانی ملے گا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہیں پانی مل گیا، اس وجہ سے دیہاتی اس فتنہ کا شکار ہو گئے۔[2] اس کی بکواس میں سے یہ ہے کہ اس نے نماز سے سجدوں کو ختم کر دیا اور اس کا یہ زعم تھا کہ آسمان سے اس پر وحی آتی ہے اور اس کی مسجع عبارتوں میں سے یہ عبارت ہے جسے وہ وحی الٰہی کہتا تھا: ((والحمام والیمام، والصرد الصوام، قد صُمْنَ قبلکم باعوامٍ، لیبلغن ملکنا العراق والشام۔)) ’’اور کبوتر اور جنگلی کبوتر اور روزہ دار لٹورے تم سے بہت سال قبل روزہ رکھتے ہیں۔ عراق و شام تک ہماری بادشاہت ہو گی۔‘‘[3] یہ شخص غرور نفس کا شکار ہوا، اس کا مسئلہ زور پکڑا، اس کی طاقت بڑھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ضرار بن ازور اسدی رضی اللہ عنہ کو اس سے قتال کے لیے روانہ کیا لیکن ضرار کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کی قوت وقت کے ساتھ بڑھ چکی تھی اور خاص کر اسد و غطفان دونوں حلیفوں کے اس پر ایمان لے آنے کے بعد۔[4] دائرۃ المعارف الاسلامیہ (اسلامی انسائیکلوپیڈیا) نے اس سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے: ’’یہ برجستہ شعر کہتا تھا اور میدان قتال میں بغیر تیاری کے خطاب کرتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جاہلی قبائلی زعیم کا حقیقی آئیڈیل تھا۔ اس کے اندر بہت سی صفتیں جمع تھیں، عراف تھا، شاعر تھا، مقرر تھا، مقاتل تھا۔‘‘[5] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |