گے۔ تم سیدھے حذیفہ اور عرفجہ کے پاس پہنچو اور ان کے ساتھ عمان اور مہرہ کے لوگوں سے قتال کرو اگر وہ دونوں مشغول ہو جائیں تو تم اپنی فوج کو لے کر روانہ ہو جاؤ، جن کے پاس سے گذرو ان سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے یمن وحضرموت میں مہاجر بن ابی امیہ سے جا ملو۔[1] ہم یہاں دیکھ رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین سے قتال کے لیے جب اسلامی لشکروں کو روانہ فرمایا تو مسیلمہ کذاب سے قتال کے لیے دو لشکر روانہ کیے، ایک عکرمہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اور دوسرا شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو دشمن کی قوت اور مقابلہ کی طاقت کا گہرا تجربہ تھا۔ جب عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جلد بازی کی تو شکست کھانا پڑی۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں لکھا کہ: ’’اس حالت میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتا اور نہ تم مجھے دیکھو، لوٹ کر مت آنا، لوگ کمزور پڑ جائیں گے۔‘‘ یہ جنگی تجربہ کی واضح دلیل ہے اور معرکوں کے نتائج میں معنوی قوت کا گہرا اثر پڑتا ہے، اگر یہ شکست خوردہ لوگ واپس آجاتے اور مقابل میں نکلنے والی دوسری فوج سے دشمنوں کی قوت اور تعداد کا تذکرہ کرتے، تو اس سے فوج کے افراد میں خوف اور ضعف طاری ہو جاتا۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں جنگی دور اندیشی واضح تھی اسی لیے عکرمہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج کو دوسرے مقامات پر روانہ کر دیا، وہاں وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور اس طرح ان کی معنوی قوت میں اضافہ ہوا۔ جس وقت معاذ رضی اللہ عنہ یمن سے مدینہ واپس آئے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کا استقبال کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ عمال کی نگرانی کرتے اور ان کے کاموں سے فراغت کے بعد ان کا محاسبہ کرتے۔ معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: اپنا حساب پیش کرو۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا دو حساب دوں، اللہ کو حساب دوں اور آپ کو حساب دوں؟ اللہ کی قسم! کبھی بھی کوئی ذمہ داری قبول نہ کروں گا۔[3] یمن کی وحدت ،ان کے سامنے اسلام کا واضح ہونا اور خلیفہ کی اطاعت: حروب ارتداد کے خاتمہ کے بعد یمن مدینہ کی مرکزی قیادت کے ماتحت ہو گیا۔ یمن کو تین صوبوں میں تقسیم کر دیا گیا، اس تقسیم میں قبائل کو اساس نہ بنایا گیا بلکہ انتظامی امور کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تقسیم عمل میں لائی گئی۔ صنعاء، جند اور حضرموت، یمن کے یہ تین صوبے قرار پائے۔ قیادت و امارت میں قبائلی عصبیت کو اساس نہیں بنایا گیا۔ قبائل صرف عسکری شعبے رہے سیاسی نہیں۔ تقویٰ، اخلاص اور عمل صالح اصل معیار قرار پائے۔[4] یمن شرک کے جملہ مظاہر سے پاک ہو گیا، خواہ اس کا تعلق اعتقاد سے تھا یا قول وفعل سے، اور انہوں نے یہ حقیقت سمجھ لی کہ مقام نبوت اس سے کہیں زیادہ بلند ہے کہ کھلواڑ کرنے والے مدعیان اس کا دعویٰ کریں یا اس کو |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |