Maktaba Wahhabi

314 - 512
قبائل کے حق کی طرف لوٹ آنے کے بعد درگذر کر دیا جائے۔ جس وقت آپ نے یمن کے مرتد قبائل کو تابع کیا، انہیں اسلامی سلطنت کے سطوت وغلبہ اور مسلمانوں کی عزت وفتح مندی کی قوت اور ان کی عزیمت کی پیش قدمی کا مشاہدہ کرایا تو قبائل نے اعتراف کر لیا اور اسلامی حکومت کے تابع ہو گئے اور خلیفہ رسول کی اطاعت قبول کر لی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ مناسب سمجھا کہ ان زعمائے قبائل کے ساتھ تالیف قلب کی جائے اور سختی کی بجائے نرمی اور رفق کا برتاؤ کیا جائے چنانچہ ان سے سزائیں اٹھا لیں، ان سے نرم گفتگو کی اور قبائل کے اندر ان کے نفوذ و اثر کو اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے استعمال کیا۔[1] آپ نے ان کی لغزشوں کو معاف کیا، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔ قیس بن عبدیغوث مرادی اور عمرو بن معدی کرب کے ساتھ یہی برتاؤ کیا، یہ دونوں عرب کے بہادروں اور عقلمندوں میں سے تھے۔ ان کو ضائع کرنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اچھا نہ لگا، آپ نے اس بات کی کوشش کی کہ انہیں اسلام کے لیے خالص کر لیں اور اسلام اور ارتداد کے درمیان تردد سے ان کو نکال باہر کریں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمرو سے کہا: تمہیں شرم نہیں آتی کہ روزانہ شکست یا قید کا شکار ہوتے ہو اگر تم اس دین کی نصرت وتائید میں لگ جاؤ تو اللہ تمہیں سر بلندی سے ہمکنار کرے گا۔ عمرو نے عرض کیا: اب میں ایسا ہی کروں گا اور اس سے پھروں گا نہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے رہا کر دیا، پھر اس دن کے بعد عمرو کبھی مرتد نہ ہوا بلکہ اسلام قبول کیا اور اچھی طرح مسلمان بن کر زندگی گذاری، اللہ نے اس کی مدد کی اور اس نے اسلامی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا اور قیس بھی اپنے کیے پر نادم ہوا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے بھی معاف کر دیا۔ عرب کے ان دونوں سورماؤں کو معاف کر دینے سے بڑے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اس طرح ان لوگوں کے دلوں کو جوڑا جو ارتداد کے بعد خوف یا لالچ میں اسلام کی طرف واپس ہوئے، اور آپ نے اشعث بن قیس کو معاف کر دیا۔[2] اس طرح صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے دلوں کو اسیر کیا اور ان کے دلوں کے مالک بن بیٹھے اور مستقبل میں یہ لوگ اسلام کی نصرت اور مسلمانوں کی قوت کا ذریعہ بنے اور اس سلسلہ میں ان کا اچھا کردار رہا۔[3] عکرمہ رضی اللہ عنہ کو وصیت اور معاذ رضی اللہ عنہ کا محاسبہ: جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عکرمہ رضی اللہ عنہ کو مسیلمہ کذاب سے جنگ کے لیے بھیجا اور آپ کے پیچھے شرحبیل بن حسنہ کو لگایا، عکرمہ رضی اللہ عنہ نے جلد بازی کی، جس کی وجہ سے بنو حنیفہ ان کے مقابلہ میں ڈٹ گئے اور شکست دے دی، عکرمہ رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صورت حال سے باخبر کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں تحریر کیا: اے ام عکرمہ کے بیٹے! اس حالت میں، میں تمہیں دیکھنا نہیں چاہتا اور نہ تم مجھے دیکھو، واپس مت آنا اس سے مسلمان کمزور پڑیں
Flag Counter