Maktaba Wahhabi

313 - 512
چلے جانے کا حکم دے دیا گیا اور جب وہاں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی تھی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے جا چکے تھے۔ مسجد نبوی کے دروازے پر اونٹنی بٹھائی اور مسجد میں داخل ہوئے اور ایک ستون کے پاس نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ آپ کو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دیکھا، آپ کے پاس آئے، پوچھا: ’’آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘ کہا: یمن سے۔ فرمایا: ان کا کیا حال ہے جنہیں کذاب یمن نے آگ میں ڈال دیا تھا؟ کہا: وہ عبداللہ بن ثوب ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں آپ کو اللہ کی قسم دلاتا ہوں کیا وہ آپ ہی ہیں؟ کہا: ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو گلے سے لگا لیا اور رو پڑے پھر آپ کو لے جا کر اپنے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان بٹھایا اور فرمایا: الحمد للہ، اللہ کا بڑا شکر ہے کہ اس نے مرنے سے پہلے مجھے امت محمدیہ میں ایسے فرد کو دکھا دیا جس کے ساتھ وہ فعل دہرایا گیا جو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ساتھ کیا گیا تھا۔[1] یہ اس صالح شخص کی کرامت ہے جس نے اللہ کے حدود کی پابندی کی، اللہ کے لیے دوستی اور اللہ ہی کے لیے دشمنی کی اور ہر چیز میں اللہ پر توکل کیا، اسی وجہ سے اللہ نے قول وعمل میں توفیق بخشی اور امن و اطمینان سے نوازا اور ان کے ہاتھ پر یہ کرامت جاری کی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّـهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٦٢﴾ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ﴿٦٣﴾ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (یونس: ۶۲۔۶۴) ’’یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ ان کے لیے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں کچھ فرق نہیں ہوا کرتا، یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے یہاں عفو و درگذر: ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے دور اندیش، گہری بصیرت کے مالک اور انجام کار پر نگاہ رکھتے تھے۔ جہاں سختی کی ضرورت ہوتی سختی کرتے اور جہاں عفو و درگذر کی ضرورت ہوتی عفو و درگذر سے کام لیتے۔ آپ قبائل کے بکھرے ہوئے لوگوں کو اسلام کے پرچم تلے جمع کرنے کے حریص وشوقین تھے۔ آپ کی حکیمانہ سیاست یہ تھی کہ مخالف زعمائے
Flag Counter