’’قسم اگر آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے تو اے قیل کی اولاد! محمد کا رب نہیں مرا ہے۔‘‘ دعاہ الیہ ربُّہ فاجابَہ یا خَیْرَ غَوْرِیٍّ ویا خیر مُنْجِدِ[1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے رب نے بلایا تو آپ نے لبیک کہا۔ اے تہامہ اور نجد کے بہترین لوگو!‘‘ جب کندہ کی شاخ بنو معاویہ نے اپنی زکوٰۃ روک لی تو شرحبیل بن سمط اور ان کے بیٹے اٹھے اور بنو معاویہ سے کہا: آزاد لوگوں کا اپنے مؤقف سے بار بار ہٹنا اور تلون مزاجی اختیار کرنا قبیح فعل ہے۔ شریف لوگ مشتبہ امر پر ڈٹ جاتے ہیں اور واضح ترین امر کی طرف منتقل ہونا ناپسند کرتے ہیں۔ اے اللہ! میری قوم نے جو کچھ کیا ہے اس پر میں ان کا ساتھ نہیں دیتا پھر یہاں سے منتقل ہو کر زیاد کے پاس چلے گئے۔ ان کے ساتھ امرء القیس بن عابس بھی تھے انہوں نے زیاد سے کہا: ان پر راتوں رات حملہ آور ہوں، ان کے ساتھ ’’سکاسک‘‘ اور ’’سکون‘‘ کے لوگ ہیں اور حضرموت کے بدمعاش بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔ اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو ہمیں خطرہ ہے کہ لوگ ہم سے کٹ کر ان سے جا ملیں گے۔ زیاد رضی اللہ عنہ نے ان کی بات مان لی اور اکٹھے ہو کر ان پر راتوں رات حملہ آور ہوئے، وہ سب اپنی اپنی آگ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ مجاہدین بنو عمرو اور بنو معاویہ پر ٹوٹ پڑے، کندہ کے چاروں بادشاہوں اور ان کی بہن کو قتل کیا اور دیگر بہت سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ جو بھاگ سکتے تھے بھاگ کھڑے ہوئے اور زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ مال اور قیدی لے کر واپس ہوئے۔[2] یہ اہل ایمان کی بعض مثالیں ہیں جنہوں نے ایسا مؤقف اختیار کیا جو ان کے عمیق ایمان اور اسلام کے ساتھ گہرے تعلق پر دلالت کرتا ہے۔ یقینا یہ ایمان کے خطباء تھے۔ کرامات اولیاء: جب اسود عنسی کو یمن میں غلبہ ملا تو اس نے ابو مسلم خولانی کو بلایا جب وہ حاضر ہوئے تو ان سے کہا: کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابومسلم نے کہا: میں نہیں سنتا ہوں۔ پھر اس نے کہا: کیا تم اس بات کی شہادت دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ ابو مسلم نے کہا: ہاں۔ بار بار وہ ان سے یہی سوالات کرتا رہا اور ابو مسلم پہلا جواب دہراتے رہے۔ اسود نے حکم دیا اور ان کو بڑی آگ کے اندر ڈال دیا گیا۔ آگ نے ان کو کچھ نہ نقصان پہنچایا۔ اسود سے لوگوں نے کہا: اس کو جلا وطن کر دو، ورنہ آپ کے ماننے والوں کو خراب کر دے گا۔ آپ کو مدینہ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |