نکال باہر کرنا چاہتا ہوں لیکن قبائلی سرداروں نے کنارہ کشی اختیار کی اور اس سے کہا: تم سب ایک دوسرے کے ساتھی ہو۔ جب یہاں سے اس کو مایوسی ہوئی تو اسود عنسی کے بچے کھچے پیروکاروں سے خط کتابت شروع کی، خواہ وہ افراد جو صنعاء ونجران کے درمیان تذبذب کی زندگی گذار رہے تھے، یا وہ جو ’’لحج‘‘ میں پناہ گزیں تھے۔ ان سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ سب اساسی مقصد یعنی ابنائے فارس کو جلا وطن کرنے پر جمع ہو جائیں۔ صنعاء کے لوگوں کو اس وقت خبر ملی جب وہ چہار جانب سے گھر چکے تھے اور پھر قیس نے ابنائے فارس کو جلا وطن کرنے کے لیے لوگوں کو جمع کرنا شروع کر دیا۔[1] ادھر جب فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ خولان پہنچے تو وہاں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خط تحریر کیا اور قیس کی کارستانیوں سے آپ کو باخبر کیا۔ یہ خبر پاتے ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سرداروں کو خطوط ارسال کیے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط بھیجے تھے۔ آپ کا خط بالکل واضح اور صریح تھا۔ مخالفین کے خلاف ان کا ساتھ دو اور فیروز کی بات مانو، اس کے ساتھ لگ جاؤ، میں نے اس کو والی مقرر کیا ہے۔[2] ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے اس طریقہ عمل سے دو لازم وملزوم امور کو ہدف بنایا: آپ نے اس کو جنگی منصوبہ کے طور پر اختیار کیا کیونکہ اس وقت لشکر اسامہ شام کی طرف روانہ ہو چکا تھا اور آپ کو اس کے لوٹنے کا انتظار تھا تاکہ یمامہ، بحرین، عمان اور تمیم میں اٹھنے والے فتنہ ارتداد سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے کیونکہ ان علاقوں میں ارتداد کا فتنہ یمن میں رونما ہونے والے فتنہ ارتداد سے زیادہ سنگین تھا۔ جس کا علاج خطوط اور پیغام رساں لوگوں کے ذریعہ سے کرنے پر اکتفا کیا۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کو موقع ملے تاکہ وہ اپنے اسلام کی صداقت کو ثابت کر سکیں تاکہ ان کی ثابت قدمی اور دین پر تمسک میں اضافہ ہو کیونکہ اصل ذمہ دار اور اقرارِ اسلام کی امانت کے حامل یہی لوگ تھے۔ خاص کر جن لوگوں سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خط کتابت کی وہ وہ لوگ تھے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط بھیجے تھے اور وہ ثابت قدم رہے اور ان سے جس کا مطالبہ کیا گیا اس کو پورا کر دکھایا۔[3] فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے جن دوسرے دیگر قبائل سے اتصال کر کے اپنا حامی بنانا چاہا ان میں سرفہرست بنو عقیل بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ تھے پھر اس کے بعد قبیلہ ’’عک‘‘ سے اسی مقصد کے تحت خط کتابت کی اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے طاہر بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ [4] اور مسروق عکی کو پیغام بھیجا کہ وہ ابنائے فارس کی مدد کریں۔ یہ دونوں عک اور اشعریین کے درمیان تھے۔ ہر ایک اپنی اپنی طرف سے نکل پڑے اور قیس کے منصوبہ کو ناکام بنا دیا جو ابنائے فارس کو یمن سے نکالنے کا عزم کر چکا تھا۔ ان کو اس سے بچایا اور پھر سب |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |