پر حملہ کرنا ضروری ہے۔ اس کو قتل کر دیا جائے یا جلا دیا جائے اور اس کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی وغلام بنا لیا جائے۔ وہ کسی صورت میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکتا کیونکہ جہاں جائے گا اللہ ہی کی سلطنت میں رہے گا۔ مرتدین مسلمانوں کے حملے سے صرف اسی وقت بچ سکتے ہیں جب کہ ان کے درمیان اذان کا اہتمام ہو، ورنہ قتال ہی کے ذریعہ سے ان کا علاج کیا جائے گا۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس معاملے کو قائدین اور لشکر کی مرضی پر نہیں چھوڑ دیا، تمام قائدین کو ایک ہی خط تحریر کیا اور ان کو اس کے اندر گذشتہ خط کے مضمون کے التزام کی دعوت دی، اس خط کا متن یہ ہے: ’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ابوبکر کی طرف سے فلاں کے نام پیغام ہے، جسے مرتدین سے قتال کی مہم پر روانہ کیا گیا ہے۔ اس کو وصیت کی جاتی ہے کہ ظاہر و باطن اپنے تمام امور میں حتی الوسع اللہ سے تقویٰ اختیار کریں۔ اس کو حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کے دین کے بارے میں جدوجہد کریں اور جو لوگ اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں اور شیطانی آرزوؤں کو اختیار کر لیا ہے ان سے جہاد کریں۔ سب سے پہلے ان کو موقع دیں، اسلام کی دعوت ان کے سامنے پیش کریں، اگر وہ اس کو قبول کر لیں تو ان سے رک جائیں، ورنہ ان پر حملہ کریں یہاں تک کہ وہ اسلام کا اقرار کر لیں۔ پھر ان کو خبر کریں کہ ان کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔ ان کے ذمہ جو ہو اس کو وصول کریں اور ان کا جو حق ہے انہیں دیں، اس میں تاخیر نہ کریں، مسلمانوں کو دشمن سے قتال کرنے سے مت روکیں، جو اللہ کے دین کو قبول کر لے اور اس کو تسلیم کر لے اس کا عذر مان لیں اور بھلائی کے ساتھ اس کی مدد کریں۔ جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے اس کی بات اسی وقت مانی جائے گی جب وہ اللہ کے دین کو قبول کر لے اور جو اللہ کی دعوت کو قبول نہ کرے وہ قتل کیا جائے گا اور جہاں کہیں ہو اس سے قتال کریں۔ اسلام کے سوا اس سے کوئی چیز قبول نہ کریں۔ جو اسلام کو قبول کر لے اور اسے تسلیم کر لے اس کی بات قبول کی جائے اور جو انکاری ہو اس سے قتال کریں۔ اگر اللہ غلبہ عطا فرمائے تو سب کو تہ تیغ کر دیں اور جو مال غنیمت اللہ عطا فرمائے مجاہدین کے درمیان تقسیم کر دیں اور خمس مجھ تک پہنچائیں اور اپنے ساتھیوں کو جلد بازی اور فساد سے باز رکھیں اور نامعلوم قسم کے لوگوں کو ان میں شامل نہ کریں جب تک کہ ان کو اچھی طرح سے جان پہچان نہ لیں، کہیں وہ جاسوس نہ ہوں تاکہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو زک نہ پہنچے۔ مسلمانوں کے ساتھ سفر وحضر میں اعتدال و نرمی برتیں، برابر ان کی خبر گیری کرتے رہیں، ان کو جلدی میں نہ ڈالیں اور مسلمانوں کو حسن صحبت اور نرم گفتگو کی وصیت کرتے رہیں۔‘‘[2] یہ عہد جس کی پابندی قائدین پر لازم قرار دی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حرب ارتداد کے اندر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |