Maktaba Wahhabi

294 - 512
اذان پر جو لوگ اذان کا اہتمام کریں ان سے رک جاؤ اور اگر اذان نہ دیں تو جلدی سے ان پر حملہ کرو۔ اور اگر اذان دیں تو ان سے جو زکوٰۃ ان پر فرض ہے طلب کرو، وہ اس کو ادا کرنے سے انکار کریں تو جلدی سے ان پر حملہ کرو۔ اگر اقرار کر لیں تو قبول کر لو اور ان کے مناسب جو ہو اس پر انہیں آمادہ کریں۔‘‘[1] صدیقی خط کا بنیادی محور: ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس خط میں ہم دو محور پا رہے ہیں جس کے گرد خط کے تمام مضامین گردش کر رہے ہیں: ۱: مرتدین سے اسلام کی طرف لوٹنے کا مطالبہ۔ ۲: ارتداد پر اصرار کا انجام۔[2] اور اس خط میں کئی ایک حقائق کی تاکید کی گئی ہے: یہ خط عام وخاص سب کے نام ہے تاکہ سب اللہ کی دعوت کو سنیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، جو اس کا اقرار کرے وہ مومن ہے اور جو انکار کرے کافر ہے، اس سے جہاد و قتال کیا جائے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں۔ اللہ کا فرمان انك ميت’’یقینا آپ پر موت آئے گی‘‘ آپ پر صادق آچکا ہے۔ مومن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت نہیں کرتا، وہ زندہ وجاوید باقی رہنے والے اللہ کی عبادت کرتا ہے، جس کو کبھی موت نہیں آسکتی۔ اس لیے مرتدین کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔[3] اسلام سے پھرنا حقیقت سے لا علمی اور شیطان کے حکم کی پیروی ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ دشمن کو دوست بنا لیا جائے حالانکہ یہ اچھے نفوس کے لیے ظلم عظیم ہے کیونکہ انسان ایسی صورت میں اپنے نفس کو برضا ورغبت جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔ مسلمانوں میں خالص اور چنندہ لوگ مہاجرین و انصار اور ان کے متبعین ہیں جو دینی غیرت وحمیت اور اسلام کو توہین وتذلیل سے بچانے کے لیے مرتدین سے قتال کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جو اسلام کی طرف لوٹ آئے، اپنی ضلالت کا اقرار کر لے اور مسلمانوں سے قتال کرنے سے باز آجائے اور دین اسلام کے مطلوبہ اعمال کو بجا لائے، وہ اسلامی معاشرہ کا ایک فرد ہے، اس کو مسلمانوں کے حقوق حاصل ہیں اور وہ عائد شدہ ذمہ داریوں کا پابند ہے۔ جو مسلمانوں کی صف کی طرف لوٹنے سے انکاری ہو اور ارتداد پر ڈٹ جائے وہ محاربین میں سے ہے، اس
Flag Counter