پیمانے پر ممکنہ حد تک نشر کرنے کی کوشش کی۔ قبائل کے پاس لوگوں کو روانہ کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہاں پہنچ کر ہر مجمع میں یہ خط سنائیں اور جس کو بھی اس خط کا مضمون پہنچے اسے حکم فرمایا کہ وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جن تک نہیں پہنچی ہے۔ آپ نے اس خط میں عام و خاص سب کو خطاب کیا، خواہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہنے والے ہوں یا اس سے مرتد ہو جانے والے۔[1] اس خط کو ملاحظہ فرمائیں: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ابوبکر کی طرف سے ان تمام حضرات کے نام جن کو یہ خط پہنچے، عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، اسلام پر قائم ہوں یا اس سے پھر چکے ہوں۔ ان کو سلام جنہوں نے ہدایت کی پیروی کی اور ہدایت ملنے کے بعد ضلالت اور اندھے پن کی طرف نہیں لوٹے۔ میں اللہ کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ جو کچھ لے کر آئے اس کا اقرار کرتے ہیں اور جو اس کا انکار کرے اس کی تکفیر کرتے ہیں اور اس سے جہاد کریں گے۔ اما بعد! اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ اپنے پاس سے اپنی مخلوق کی طرف بشیر اور نذیر اور اپنی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا تاکہ ان کو ڈرائیں جن کے اندر زندگی ہے اور کافروں پر بات پوری ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو حق کی ہدایت دی جنہوں نے آپ کی بات مانی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے ان کی سرکوبی کی، جنہوں نے اس سے اعراض کیا۔ یہاں تک کہ طوعاً یا کرہاً لوگ اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دے دی، درآں حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کو نافذ کر دیا اور امت کی خیر خواہی کا حق ادا کر دیا اور اپنی ذمہ داری پوری فرما دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس چیز کو اپنی نازل کردہ کتاب میں آپ اور سارے اہل اسلام کے لیے بیان کر دیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ (الزمر: ۳۰) ’’یقینا خود آپ کو بھی موت آئے گی اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔‘‘ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |