ہے۔[1] دستوں کی تقسیم اور ان کے مواقع کی تحدید سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ جغرافیہ کا دقیق علم رکھتے تھے اور زمین کے نشانات اور انسانی آبادیوں اور جزیرۃ العرب کے راستوں سے بخوبی واقف تھے۔ گویا کہ جزیرئہ عرب مجسم شکل میں آپ کی آنکھوں کے سامنے تھا، جیسا کہ دور حاضر میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس مراکز قیادت میں ہوتا ہے۔ جو شخص بھی لشکروں کو روانہ کرنے، ان کی جہت کا تعین کرنے، تفرق کے بعد اجتماع اور دوبارہ مجتمع ہونے کے لیے تفرق میں غورو فکر کرے گا، اس کو یہ اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ یہ منصوبہ بندی پورے جزیرئہ عرب پر مثالی اور صحیح انداز سے محیط تھی اور ان لشکروں کے ساتھ رابطہ بھی انتہائی دقیق تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ہمہ وقت اس کا پتہ رہتا تھا کہ فوج کہاں ہے؟ اس کے تحرکات اور جملہ امور سے بخوبی واقف رہتے تھے اور یہ بھی پتا چلتا رہتا تھا کہ اس کو کیا کامیابی ہوئی اور کل کا کیا پروگرام ہے؟ مراسلات انتہائی دقیق اور تیز ہوا کرتے تھے اور میدان قتال سے خبریں برابر مدینہ مرکز قیادت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہنچتی رہتی تھیں، پوری فوج سے برابر رابطہ قائم رہتا تھا۔ مرکز قیادت اور میدان قتال کے درمیان فوجی خبر رسانی میں ابو خیثمہ انصاری، سلمہ بن سلامہ، ابو برزہ اسلمی اور سلمہ بن وقش رضی اللہ عنہم نے نمایاں حیثیت حاصل کی۔[2] جن لشکروں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روانہ فرمایا وہ آپس میں مربوط تھے اور یہ خلافت کی اہم کامیابیوں میں سے تھا کیونکہ ان لشکروں کے اندر قیادت کی مہارت کے ساتھ حسن تنظیم بھی موجود تھا۔ مزید برآں قتال میں تجربہ پہلے سے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں غزوات و سرایا کی تحریک میں انہیں عسکری اعمال کا اچھا تجربہ ہو چکا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حکومت کا عسکری نظام جزیرئہ عرب میں تمام عسکری قوتوں پر تفوق رکھتا تھا،[3] اور ان لشکروں کے قائد عام سیف اللہ المسلول (اللہ کی کھلی تلوار) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، جو اسلامی فتوحات اور حروب ارتداد میں منفرد عبقری شخصیت کے حامل تھے۔ اسلامی فوج کی یہ تقسیم انتہائی اہم فوجی منصوبہ کے تحت عمل میں آئی تھی کیونکہ مرتدین ابھی تک اپنے اپنے علاقوں میں متفرق تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جتھا بندی عمل میں نہ آسکی تھی۔ بڑے قبائل دور دراز علاقوں میں بکھرے ہوئے تھے، وقت اس کے لیے کافی نہ تھا کہ وہ آپس میں جتھا بندی کر سکیں کیونکہ ارتداد شروع ہوئے ابھی تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ نہ گذرا تھا، اور ثانیاً وہ اپنے خلاف مسلمانوں کے خطرہ کو نہ سمجھ سکے، وہ یہ تصور کیے ہوئے تھے کہ چند ماہ میں تمام مسلمانوں کا صفایا کر دیں گے۔ اسی لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اچانک ان کی شوکت و قوت کا صفایا کیا جائے، قبل ازیں کہ وہ اپنے باطل کی نصرت کے لیے جتھا بندی کر سکیں۔[4] اس لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے فتنہ کے بڑھنے سے قبل ہی ان کی خبر لی اور انہیں اس بات کا موقع نہ دیا کہ وہ اپنا سر اٹھا سکیں اور اپنی |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |