ذوالقصہ پر چڑھائی کی، جو مدینہ سے ایک دن کی مسافت پر واقع ہے تاکہ مرتدین اور متمردین سے قتال کریں۔ صحابہ نے آپ سے یہ پیشکش کی کہ آپ کسی دوسرے کو فوج کی قیادت سونپ دیں اور خود مدینہ واپس ہو کر امور خلافت کو سنبھالیں اور اس مطالبہ پر زور دیا۔ اس سلسلہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میرے والد تلوار کھینچ کر وادی ذوالقصہ کی طرف روانہ ہوئے، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور سواری کی نکیل تھام لی اور عرض کیا: اے خلیفہ رسول کہاں جا رہے ہیں؟ میں وہی کہوں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن کہا تھا: [1] اپنی تلوار میان میں ڈال لیجیے اور اپنے بارے میں کوئی بری خبر نہ سنوایئے، واللہ اگر آپ کو کچھ ہو گیا تو آپ کے بعد اسلام کا نظام کبھی قائم نہیں ہو سکتا، تو آپ لوٹ آئے۔[2] اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسلامی فوج کو گیارہ دستوں میں تقسیم کر دیا اور ہر دستہ پر امیر مقرر کیا،[3] اور ہر امیر کو یہ حکم فرمایا کہ جن بستیوں سے گذر ہو وہاں کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے لیں۔ وہ دستے یہ تھے: ۱: لشکر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، اوّلاً بنی اسد، پھر بنی تمیم، پھر یمامہ کی طرف۔ ۲: لشکر عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ ، اوّلاً بنو حنیفہ میں مسیلمہ کذاب، پھر عمان و مہرہ، پھر حضرموت، پھر یمن کی طرف۔ ۳: لشکر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ ، اوّلاً یمامہ عکرمہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے، پھر حضرموت کی طرف۔ ۴: لشکر طریفہ بن حاجب رضی اللہ عنہ ، بنو سلیم کی طرف۔ ۵: لشکر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ، قضاعہ کی طرف۔ ۶: لشکر خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ ، حدود شام کی طرف۔ ۷: لشکر علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بحرین کی طرف۔ ۸: لشکر حذیفہ بن محصن غطفانی رضی اللہ عنہ ، عمان کی طرف۔ ۹: لشکر عرفجہ بن ہرثمہ، مہرہ کی طرف۔ ۱۰: لشکر مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ ، یمن کی طرف (صنعاء پھر حضرموت) ۱۱: لشکر سوید بن مقرن رضی اللہ عنہ ، تہامۂ یمن کی طرف۔[4] اس طرح ذوالقصہ فوجی مرکز قرار پایا، یہاں سے منظم اسلامی افواج ارتداد کی تحریک کو کچلنے کے لیے مختلف علاقوں کی طرف روانہ ہوئیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے منصوبہ سے منفرد عبقریت اور دقیق جغرافیائی تجربہ کا پتا چلتا |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |