Maktaba Wahhabi

283 - 512
نے اسے بطور غنیمت ہمیں عطا کیا ہے اور جب مرتدین مغلوب ہو گئے اور آپ نے لوگوں کو معاف کر دیا تو بنو ثعلبہ حاضر ہوئے، وہی لوگ یہاں آباد تھے، آپ نے ان کو وہاں دوبارہ آباد ہونے سے روک دیا، وہ مدینہ میں آپ کے پاس حاضر ہوئے، عرض کیا: آپ ہمیں اپنے علاقہ میں آباد ہونے سے کیوں منع کرتے ہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جھوٹ کہہ رہے ہو۔ یہ تمہارا علاقہ نہیں رہا، یہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کیا ہے اور ہم نے دشمن سے حاصل کیا ہے۔ ان کی شرارتوں کو معاف نہ کیا، ابرق کے مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے چراگاہ بنا دیا اور ربذہ کے باقی علاقہ کو لوگوں کے لیے عام چراگاہ قرار دے دیا لیکن جب صدقات کے اونٹوں کے ذمہ داران اور لوگوں کے درمیان لڑائی ہو گئی تو آپ نے اس کو صدقات کے اونٹوں کے لیے خاص کر دیا۔ ابرق کی جنگ کا تذکرہ زیاد بن حنظلہ نے اپنے اشعار میں یوں کیا ہے: ویوم بالابارقِ قد شَہِدْنا علی ذبیان یلتہب التِہَابا ’’ابرق کی جنگ میں ہم حاضر تھے، ذبیان پر شعلے برس رہے تھے۔‘‘ اتیناہم بداہیۃ نَسُوف مع الصدیق اذ ترک العِتابا[1] ’’ہم ان کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہلاکت خیز مصیبت لے کر پہنچے، جبکہ آپ نے ان کی شرارتوں کو معاف نہ کیا۔‘‘ اس طرح مسلمان ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سیرت سے تعلیم حاصل کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپنے متبعین سے دنیا کے کسی امر میں بے نیاز نہ سمجھا۔ آج ایک طویل عرصہ سے مسلمانوں کے مسائل جو مضطرب ہیں اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگ حکومت وسلطنت کو جاہ وحشمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور حصول زر اور جلب منافع کا دروازہ تصور کرتے ہیں اور اپنی خیر مناتے ہیں، اور ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے یا مراکز قیادت سے بیان جاری کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور امت کے مختلف مسائل وقضایا میں عملی شرکت سے دور رہتے ہیں۔[2] ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مسلسل یکے بعد دیگرے تین بار جہاد کے لیے نکلنا بہت بڑی قربانی اور بلند درجہ کی فدائیت تھی۔ مسلمانوں نے آپ سے گذارش کی کہ آپ مدینہ میں باقی رہیں اور اپنی جگہ کسی اور کو قائد الجیش مقرر فرما دیں لیکن اس کو قبول نہ کیا اور فرمایا: واللہ میں ایسا نہیں کروں گا، میں اپنی جان کے ذریعہ سے تمہاری غم خواری کروں گا۔ یہ قول آپ کی بلند پایہ تواضع اور خاکساری، مصالح امت کے انتہائی اہتمام اور خود غرضی سے دوری پر دلالت کرتا ہے۔ اس طرح آپ لوگوں کے لیے بہترین قدوہ و نمونہ قرار پائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ
Flag Counter