Maktaba Wahhabi

284 - 512
کے ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود مسلسل تین بار جہاد کے لیے نکلنے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نشاط و قوت ملی اور ان کے حوصلے بلند ہوئے۔[1] ایک روایت میں ہے کہ ضرار بن ازور نے جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو طلیحہ اسدی کے اپنی قوت کو مجتمع کرنے کی خبر دی، تو ضرار کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی کو جنگی عزائم سے زیادہ پر نہیں دیکھا، ہم آپ کو دشمن کے اکٹھے ہونے کی خبر دیتے اور آپ کی کیفیت یہ ہوتی کہ گویا ہم آپ کو آپ کے حق میں خبر دے رہے ہیں، آپ کے خلاف نہیں۔[2] یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء سے دشمن پر فتح ونصرت اور زمین میں غلبہ وتمکنت کا جو وعدہ فرمایا ہے اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو یقین راسخ اور مکمل اعتماد تھا اس کی انتہائی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کثرت عمل میں دیگر صحابہ پر فوقیت نہیں لے گئے بلکہ آپ یقین کی جن بلندیوں پر فائز تھے اس کی وجہ سے دیگر صحابہ پر فوقیت رکھتے تھے۔[3] بیان کیا گیا ہے کہ جب آپ سے کہا گیا کہ آپ جن حالات سے دوچار ہیں اگر یہ حالات پہاڑوں کو پیش آتے تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے اور سمندر کو پیش آتے تو سمندر خشک ہو جاتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آپ پر ان کا کچھ اثر نہ ہوا اور آپ ذرا بھی کمزور نہ پڑے؟ فرمایا: غار ثور کی رات کے بعد میرے دل پر کسی کا رعب وخوف طاری نہ ہوا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غار ثور میں جب میرا حزن وملال دیکھا تو فرمایا: ابوبکر فکر مت کرو، اللہ تعالیٰ نے اس دین کو تمام کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔[4] اس طرح آپ کو جسمانی شجاعت کے ساتھ دینی شجاعت اور اللہ کے بارے میں قوت یقین حاصل تھی اور آپ کو مکمل اعتماد تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اور اہل ایمان کی مدد کرے گا، یہ شجاعت صرف اسی شخص کو حاصل ہوتی ہے جو قوی القلب ہو۔ ایمان کی زیادتی سے اس میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی کمی سے نقص حاصل ہوتا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ قوی القلب تھے، اس میں آپ کا ہم سر کوئی نہ تھا۔ [5] 
Flag Counter