Maktaba Wahhabi

281 - 512
وان التی سالوکم فمنعتُم لکالتَّمر او احلی الی من التَّمْرِ[1] ’’اور تم لوگوں سے جس چیز کا مطالبہ کیا اور تم نے اس کو مسترد کر دیا، وہ میرے نزدیک کھجور یا کھجور سے زیادہ شیریں تھیں۔‘‘ اس واقعہ سے لوگوں کو یہ گمان ہو گیا کہ مسلمان کمزور ہیں۔ ذوالقصہ کے لوگوں کو خبر بھیج دی، وہ لوگ ان کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے آگئے، ان کو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کی خبر نہ تھی۔ ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ پوری رات تیاری میں لگے رہے۔ پھر پوری تیاری کے ساتھ رات کے اخیر حصہ میں نکلے، میمنہ پر نعمان بن مقرن، میسرہ پر عبداللہ بن مقرن اور ساقہ پر سوید بن مقرن تھے، آپ کے ساتھ شہسوار بھی تھے۔ فجر طلوع ہوتے ہی اسلامی فوج اور دشمن ایک ہی میدان میں تھے۔ دشمن کو اس کا احساس تک نہ ہو سکا، جب ان پر تلواریں پڑنے لگیں تب پتہ چلا، رات کے اخیر حصہ میں جنگ جاری رکھی اور سورج نکلتے ہی دشمن بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمان غالب آئے اور ان کی تمام سواریاں مسلمانوں کے ہاتھ آگئیں۔ طلیحہ اسدی کا بھائی حبال قتل ہو گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کا پیچھا کیا اور ذوالقصہ پہنچے۔ یہ پہلی فتح تھی۔ وہاں نعمان بن مقرن کو کچھ لوگوں کے ساتھ چھوڑ کر خود مدینہ چلے آئے۔ بنو ذبیان اور عبس نے وہاں مسلمانوں پر دھاوا بول دیا اور انہیں قتل کر ڈالا اور یہی حرکت ان لوگوں نے بھی کی جو ان کے پیچھے تھے۔ مسلمانوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حملہ سے اس طرح عزت وغلبہ نصیب ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھالی کہ ہر مقتول کے بدلے مشرکین میں سے ضرور قتل کروں گا اور ہر قبیلہ میں سے جتنے مسلمان قتل ہوئے ان کے برابر اور ان سے زیادہ لوگوں کو قتل کروں گا۔[2] اسی سلسلہ میں زیاد بن حنظلہ تمیمی نے کہا: غَــداۃَ سـعی ابـوبـکر الـیـہــم کما یَسعٰی لموتتہ جُلالُ ’’صبح صبح ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کی طرف بڑھے جیسے اپنی موت کی طرف اونٹ بڑھتے ہیں۔‘‘ اراحَ علی نَواہِقِہا عَلِیًّا ومَجَّ لہُنَّ مُہْجَتَہَ حِبالُ[3] ’’علی رضی اللہ عنہ کو ان کے گدھوں کی طرف روانہ کیا اور حبال نے اپنی جان گنوا دی۔‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ عزم مصمم کر لیا کہ مسلم شہداء کا انتقام ضرور لیں گے اور ان حاقدین کی تادیب ضرور
Flag Counter