اور مرتدین میں سے جو مدینہ سے قریب تھے ان کا خطرہ بڑھ چکا تھا جیسے بنو عبس اور بنو ذبیان۔ تاہم جن ناگفتہ بہ حالات سے مدینہ گذر رہا تھا آپ نے ان سے قتال کو ناگزیر سمجھا۔ مرتدین کی غداری سے بچانے کے لیے خواتین اور بچوں کو قلعوں میں محفوظ کر دیا[1] اور ان سے قتال کے لیے تیار ہو گئے۔ مدینہ پر حملہ آور ہونے میں مرتدین کی ناکامی: مرتدین کے وفود کے مدینہ سے لوٹنے کے تین دن بعد بعض قبائل اسد، غطفان، عبس، ذبیان اور بکر نے مدینہ پر راتوں رات چڑھائی کی اور کچھ لوگوں کو ’’ذوحسی‘‘ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ ان کے لیے پشت پناہ رہیں۔ مدینہ کے راستوں پر حفاظتی دستوں کو اس کا احساس ہو گیا، انہوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خبر بھیجی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم بھیجا کہ اپنے مقامات پر ڈٹے رہو۔ وہ اپنی جگہ ڈٹ گئے اور جو لوگ مسجد میں تھے وہ اونٹوں پر سوار ہو کر ان کی طرف آگے بڑھے۔ دشمن کی ہوا اکھڑ گئی۔ مسلمانوں نے اونٹوں پر سوار ہو کر ان کا تعاقب کیا، یہاں تک کہ ’’ذو حسی‘‘ تک پہنچے۔ وہاں موجود مددگار مشکیزے لے کر نکلے جس میں ہوا بھر رکھی تھی اور رسّی سے باندھ رکھا تھا۔ پھر اسے اونٹوں کے سامنے پیروں سے لڑھکا دیا۔ ہر مشکیزہ اپنی رسّی سے لڑھک گیا، مسلمانوں کے اونٹ اپنے سواروں کے ساتھ بدک اٹھے۔ اونٹ مشکیزوں سے جس بری طرح بدکتے ہیں، اتنا اور کسی چیز سے نہیں بدکتے، اونٹ اس قدر بدکے کہ قابو سے باہر ہو گئے، مدینہ آکر دم لیا لیکن کوئی مسلمان نہ سواری سے گرا اور نہ اس کو زخم لگے۔[2] اس موقع پر عبداللہ لیثی نے کہا: اطعنا رسولَ اللّٰہ ما کان بیننا فینا لعبادِ اللہ ما لابی بکر ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک ہمارے درمیان تھے ہم نے آپ کی اطاعت کی، اللہ کے بندو! اب ابوبکر کو کیا لینا دینا ہے۔‘‘ ایورثہا بکرا اذا مات بعدَہ وتلک لعمرُ اللہ قاصمۃُ الظَّہر ’’اپنی موت کے بعد کیا بکر کو وارث بنائے گا؟ اللہ کی قسم یہ کمر توڑ مصیبت ہے۔‘‘ فہلَّا رددتم وفدنا بزمانہ وہلَّا خَشِیتُم حس راغبۃ البکر ’’تم نے ہمارے وفد کو کیوں لوٹا دیا، تم کیوں نہیں بکر کو چاہنے والے حس سے ڈرے؟‘‘ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |