نے ان کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا اور ان کے عہد و پیمان کو ان کے حوالے کر دیا، تو وہ تیاری کر چکے ہیں۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس خطرے سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ سے منصوبہ بندی کی: اہل مدینہ پر لازم قرار دیا کہ وہ مسجد ہی میں رات گذاریں تاکہ دفاع کے لیے مکمل طریقہ سے تیار رہیں۔ مدینہ کے مختلف راستوں پر حفاظتی دستے بٹھائے، ان کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ وہیں رات گذاریں اور جب کوئی حملہ ہو تو دفاع کریں۔ حفاظتی دستوں پر امراء مقرر کیے جو مندرجہ ذیل تھے: علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبیداللہ، سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمن بن عوف، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ۔[2] مدینہ کے اردگرد جو قبائل اسلام پر قائم تھے جیسے اسلم، غفار، مزینہ، اشجع، جہینہ، کعب، ان سب کو خط لکھا اور انہیں مرتدین سے جہاد کا حکم دیا۔ انہوں نے آپ کے حکم کو قبول کیا اور مدینہ ان سے بھر گیا۔ ان کے ساتھ گھوڑے، اونٹ تھے، جنہیں انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا۔[3] ان قبائل کے افراد کی کثرت اور ان کی غیر معمولی امداد کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ صرف جہینہ نے چار سو افراد اونٹوں اور گھوڑوں کے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ کیے اور عمرو بن امیہ جہنی نے سو اونٹ مسلمانوں کی مدد کے لیے بھیجے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔[4] جو مرتدین مدینہ سے دور رہے اور ان سے خطرہ کم ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے خطوط کے ذریعہ سے جنگ کی چنانچہ آپ نے مسلم امراء اور والیان کو مختلف علاقوں میں خطوط لکھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ انہیں مرتدین سے قتال کے لیے اٹھ کھڑے ہونے پر ابھارتے اور لوگوں کو ان کا ساتھ دینے پر برانگیختہ کرتے۔ اس کی واضح مثال وہ خط ہے جو آپ نے اہل یمن کو تحریر کیا تھا، جہاں اسود عنسی کے ساتھ مرتدین کا لشکر موجود تھا۔ اس خط میں آپ نے تحریر فرمایا: اما بعد! ابنائے فارس کی ان کے مخالفین کے خلاف مدد کرو اور ان کا مکمل ساتھ دو اور فیروز کی بات مانو، اس کی کوشش میں شریک رہو، میں نے اس کو والی مقرر کیا ہے۔[5] یہ خط نتیجہ خیز ثابت ہوا، فارسی نژاد مسلم نوجوان فیروز کی قیادت میں اٹھے اور عرب نوجوانوں نے ان کا ساتھ دیا اور مل کر انہوں نے مرتدین پر ایسا حملہ کیا کہ ان کی ساری سازشیں اللہ نے ناکام کر دیں اور یمن رفتہ رفتہ راہ حق پر آگیا۔[6] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |