مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (البقرۃ: ۸۵) ’’کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ تم میں سے جو بھی ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہو کہ دنیا میں رسوائی اور قیامت کے دن سخت عذاب کی مار، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مؤقف جس میں کوئی نرمی، کوئی سودے بازی اور تنازل نہ تھا، یہ اللہ کی طرف سے ایک الہام شدہ مؤقف تھا۔ اللہ رب العالمین کے احسان کے بعد، اس دین کی سلامتی اور اپنی اصلی حالت میں بقاء کے سلسلہ میں اس مؤقف کا بڑا اہم کردار رہا۔ سب نے اس کا اقرار کیا اور تاریخ نے اس بات کی شہادت دی کہ ظالم کا ارتداد اور اسلام کی ایک ایک کڑی کو توڑنے کی سازش کے مقابلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو مؤقف اختیار کیا یہ وہی مؤقف تھا جو انبیاء و رسل نے اپنے دور میں اختیار کیا تھا اور یہی خلافت نبوت ہے جس کا حق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ادا کر دیا اور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کی تعریف وستائش اور دعا کے مستحق قرار پائے۔[1] مدینہ کی حفاظت کا منصوبہ: بعض قبائل کے وفود جو زکوٰۃ کی ادائیگی سے رک گئے تھے، صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات کی کوشش کی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ نہ وصول کرنے پر مطمئن کر دیں لیکن آپ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے، ان وفود نے جب آپ کا عزم دیکھا تو مدینہ سے واپس ہو گئے لیکن مدینہ سے جاتے وقت دو باتیں ان کے ذہن میں راسخ تھیں: ۱: منع زکوٰۃ کے سلسلہ میں کوئی گفتگو کار گر نہیں، اس سلسلہ میں اسلام کا حکم واضح ہے اور خلیفہ کی اپنی رائے اور عزم سے پیچھے ہٹنے کی کوئی امید نہیں، خاص کر جب کہ مسلمان دلیل کے واضح ہونے کے بعد آپ کی رائے سے متفق ہو چکے ہیں اور آپ کی تائید کے لیے کمر بستہ ہیں۔ ۲: بزعم خویش مسلمانوں کی کمزوری اور قلت تعداد کو غنیمت جانتے ہوئے مدینہ پر ایک ایسا زور دار حملہ کیا جائے جس سے اسلامی حکومت گر جائے اور اس دین کا خاتمہ ہو جائے۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے چہروں سے ان کی غداری کو بھانپ لیا اور اپنی فراست سے ان کی کمینگی اور رذالت کا پتہ چلا لیا، اپنے ساتھیوں سے کہا: یہ لوگ کافر ہو چکے ہیں، ان کے وفود نے تمہاری قلت دیکھ لی ہے، وہ رات یا دن میں بھی تم پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ تم سے سب سے زیادہ قریب ایک برید (بارہ میل) کے فاصلے پر ہیں۔ یہ لوگ یہ امید لے کر آئے تھے کہ ہم ان کی بات مان لیں گے اور ان کو چھوڑ دیں گے۔ ہم |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |