جب بہت سے قبائل عرب نے بیت المال کو زکوٰۃ دینے سے انکار کیا یا مطلقاً زکوٰۃ کی فرضیت کے منکر ہوئے، اس موقع پر جو کلمات ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبان سے نکلے وہ طویل اور فصیح و بلیغ خطبہ اور بڑی کتاب کے برابر تھے، اسلام کا دقیق فہم، دین پر شدید غیرت اور عہد نبوی میں جس شکل میں دین تھا اس کو اس کی ہیئت پر باقی رکھنے کا عزم ان کے مختصر کلمات سے نمایاں ہوتے ہیں۔ وہ کلمات یہ تھے: وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا اور دین پورا ہو گیا ہے، میرے جیتے جی اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔ [1] اور ایک روایت میں ہے، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا: اے خلیفہ رسول! لوگوں کے ساتھ تالیف قلب اور نرمی کا برتاؤ کیجیے۔ فرمایا: عمر! جاہلیت میں بڑے بہادر اور اسلام میں اتنے بزدل؟ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے اور دین پورا ہو گیا ہے، میرے جیتے جی اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین سے قتال کے سلسلہ میں صحابہ کرام کے مؤقف وخیالات کو سنا اور انہیں وضاحت کے ساتھ سننے کے بعد ہی جنگ کا فیصلہ کیا، آپ قرارداد اورفیصلہ میں جلدی اور پختہ رائے کے مالک تھے۔ صحیح اور درست بات واضح ہو جانے کے بعد اس میں ایک لحظہ بھی تردد نہ کرتے اور عدم تردد پوری زندگی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی واضح صفت تھی۔[3] مسلمان آپ کی رائے کی صحت پر مطمئن ہوئے، اس کو اختیار کیا اور صحیح سمجھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے دور اندیش، زیرک اور ارتداد کی عظیم آفت اور پریشان کن حالات میں سب سے زیادہ مطمئن تھے۔[4] اسی لیے سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ صحابہ میں سب سے زیادہ سمجھدار اور بہترین رائے رکھنے والے تھے۔‘‘[5] ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بصیرت اپنے ساتھیوں میں سب سے زیادہ تیز تھی، کیونکہ آپ نے معاملہ کو اس ایمانی بصیرت سے سمجھا جو تمام کے ایمان پر بھاری تھا، وہ یہ کہ زکوٰۃ کو شہادتین سے جدا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جس نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس حق کو تسلیم کرے جو اس کے مال میں فرض کیا جائے درآں حالانکہ یہ مال اصل میں اللہ ہی کا ہے۔ اور زکوٰۃ کے بغیر صرف لا الٰہ الا اللہ کا قوموں کی زندگی میں کوئی وزن نہیں، اور جس طرح لا الٰہ الا اللہ کے دفاع میں تلوار اٹھانا مشروع ہے اسی طرح زکوٰۃ کے دفاع میں تلوار اٹھانا مشروع ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ یہی صحیح اسلام ہے اور اس کے برعکس اسلام نہیں۔[6] اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو سخت وعید سنائی ہے جو کتاب کے بعض حصے پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے: أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |