دوسرے وہ جنہوں نے جھوٹے مدعیان نبوت اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور سجاح کی اتباع کی، اور تیسرے وہ جنہوں نے وجوب زکوٰۃ کا انکار کیا، اور چوتھے وہ جنہوں نے وجوب زکوٰۃ کا تو انکار نہ کیا لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دینے سے انکار کیا۔[1] دور نبوی کے اخیر میں ارتداد: ارتداد کا آغاز ۹ ہجری سے ہوا، جسے ’’عام الوفود‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ سال ہے جب جزیرئہ عرب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو تسلیم کر لیا اور اس کے سردار قائدین مختلف علاقوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اس مدت میں ارتداد کی تحریک وسیع پیمانے پر ظاہر نہیں ہوئی تھی لیکن ۱۰ ہجری کے اواخر میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو لوگوں کے کانوں میں ارتداد کی آواز پہنچنے لگی اور اس کی چنگاری راکھ کے نیچے بھڑکنے لگی۔ سانپ اپنے سر سوراخ سے نکالنے لگے، جن کے دل مریض تھے، انہیں خروج کی جرأت آئی۔ چنانچہ اسود عنسی یمن میں، مسیلمہ کذاب یمامہ میں اور طلیحہ اسدی اپنے اپنے علاقہ میں اٹھ کھڑے ہوئے۔[2] اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب اسلام کے لیے عظیم خطرہ بن گئے، یہ اپنے ارتداد کی ڈگر پر ڈٹ گئے اس سے لوٹنے کا امکان نہ رہا اور ان کو افراد ووسائل کی عظیم قوت حاصل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بارے میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب دکھایا جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں اور پھر آپ کے بعد آپ کی امت کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔ ایک دن منبر پر خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: لوگو! مجھے شب قدر دکھائی گئی، پھر مجھے بھلا دیا گیا اور میں نے اپنے دونوں بازوؤں میں سونے کے دو کنگن دیکھے، مجھے یہ بات ناگوار گذری، پھر پھونک ماری اور وہ دونوں اڑ گئے، میں نے اس کی تعبیر دو جھوٹوں سے کی۔ یمن والا (اسود عنسی) اور یمامہ والا (مسیلمہ کذاب)۔ [3] اہل علم نے اس خواب کی تعبیر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پھونک مارنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ دونوں آپ کے اشارے پر قتل کیے جائیں گے، بذات خود آپ ان سے جنگ نہیں کریں گے۔ اور آپ کا یہ بیان کرنا کہ وہ دونوں کنگن سونے کے تھے، یہ ان دونوں کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ ان کی اساس ملمع سازی اور ظاہری تزئین پر ہوتی ہے۔ اور اسی طرح ’’سوارین‘‘ کا لفظ اس پر دلالت کرتا کہ یہ دونوں بادشاہ ہوں گے اس لیے کہ ’’أساورہ‘‘ بادشاہ تھا۔ اور آپ کے دونوں ہاتھوں کو محیط ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک وقت تک ان کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے انتہائی سنگین ہوگا کیونکہ کنگن بازو کو چمٹے ہوئے ہوتے ہیں۔[4] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |