Maktaba Wahhabi

274 - 512
اور ڈاکٹر علی عتوم اس کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان دونوں کا پھونک سے اڑ جانا ان کے مکرو چال کی کمزوری پر دلالت کرتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی بڑے ہوں، وہ جھاگ کی طرح ہیں جس کے لیے زوال لازمی ہے۔ اور جب یہ کید و مکر شیطان کی طرف سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ معمولی سا حملہ ان کو داستان پارینہ میں تبدیل کر دے گا، اور ان دونوں کا سونے کا ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں کا مقصود محض دنیا ہوگا کیونکہ سونا دنیاوی مال ومتاع کی علامت ہے، جس کے پیچھے فریب خوردہ لوگ دوڑتے ہیں، اورکنگن ہونا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دونوں ہر چہار جانب سے مسلمانوں کو گھیر کر ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جس طرح کنگن کلائی کو اپنے گھیرے میں لیے رہتا ہے۔[1] مرتدین کے سلسلہ میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مؤقف: جب ارتداد کی لہر اٹھی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور اللہ کی حمدوثنا بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’تمام حمد اللہ کے لیے ہے جس نے ہدایت سے نوازا، پس کافی ہو گیا، اور عطا کیا پس بے نیاز کر دیا۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، اس وقت علم کی قدر وقیمت نہ تھی، اسلام اجنبی اور دھتکارا ہوا تھا، اس کی رسّی بوسیدہ ہو چکی تھی، اس کے کپڑے پرانے ہو چکے تھے، اس کے ما ننے والے اس سے بھٹک گئے تھے، اللہ تعالیٰ اہل کتاب سے ناراض ہو گیا تھا، ان کو کوئی خیر ان کے خیر کی وجہ سے نہیں دیتا تھا اور ان سے کوئی شر ان کے شر کی وجہ سے نہیں پھیرتا تھا، انہوں نے اپنی کتاب میں تبدیلی کر ڈالی اور اس میں دوسری چیزیں شامل کر دیں، اور عرب اپنے آپ کو اللہ رب العزت سے محفوظ سمجھتے رہے، نہ اس کی عبادت کرتے نہ اس سے دعا کرتے، اللہ نے ان کی معیشت تنگ کر دی، اللہ نے پتھریلی زمین میں بدلیوں کے ساتھ دین کو سایہ فگن کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ان کو آخری امت قرار دیا اور ان کو امت وسط بنایا اور ان کے متبعین کے ذریعہ سے ان کی مدد کی اور دوسروں پر ان کو فتح عطا کی، اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا لیا تو شیطان نے پھر اپنا قبضہ جمایا اور ان کے ہاتھ پکڑے اور ان میں سے ہلاک ہونے والے بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚوَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ (آل عمران: ۱۴۴) ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) صرف رسول ہی ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں، کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا۔ عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک
Flag Counter