Maktaba Wahhabi

239 - 512
گورنر بنائے جانے کے بعد صبح لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے بیٹھے جیسا کہ پہلے کیا کرتے تھے۔[1] اس تعلیم کے ذریعہ سے گورنروں نے اسلام کی نشرواشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی تعلیم کے ذریعہ سے مفتوحہ علاقوں میں اسلام کو استحکام واستقرار ملا۔ خواہ یہ علاقے نئے سرے سے فتح کیے گئے ہوں یا ارتداد کے بعد اسلام کے سایہ تلے واپس آئے ہوں۔ مزید برآں مکہ ومدینہ اور طائف جہاں استحکام واستقرار حاصل تھا، وہاں خود خلیفہ یا اس کے گورنر یا جن کو خلیفہ کی طرف سے تعلیم کے لیے مقرر کیا جاتا تھا، لوگوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف تھے۔[2] والی اپنے علاقے کی نگرانی وانتظام کا مکمل ذمہ دار ہوتا تھا اور سفر وعدم سفر کی حالت میں اس پر لازم تھا کہ وہ کسی کو اپنا نائب مقرر کرے جو اس کی واپسی تک اس کی ذمہ داری کو سنبھالے، چنانچہ مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کندہ کا والی مقرر کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو اس منصب پر باقی رکھا۔ لیکن مہاجر رضی اللہ عنہ کو یمن پہنچنے میں بیماری کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو انہوں نے زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کو اپنی شفا یابی اور وہاں پہنچنے تک کے لیے نائب مقرر کردیا اور اس نیابت کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے برقرار رکھا۔[3] اسی طرح خالد بن ولید رضی اللہ عنہ عراق کے والی ہونے کے وقت اپنی عدم موجودگی میں حیرہ پر اپنا نائب مقرر کرتے تھے۔امراء و ولاۃ کی تعیین وتقرری سے قبل ابوبکر رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ سے بھی مشورہ کرتے، خواہ لشکر کی امارت کا مسئلہ ہو یا شہروں اور مختلف علاقوں کی ولایت و امارت کا مسئلہ ہو۔ اس مشورہ میں عمر بن خطاب اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما پیش پیش ہوا کرتے تھے۔[4] اور اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ جس کو مقرر کرنا چاہتے اس کی تقرری سے قبل اس سے بھی مشورہ کرتے اور خاص کر اس وقت جب ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ہوتا۔ چنانچہ جب آپ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ان کی ولایت سے منتقل کر کے…جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مقرر کیا تھا… لشکر فلسطین کا امیر مقرر کرنا چاہا تو اس وقت تک تقرری صادر نہ فرمائی جب تک ان سے مشورہ کر کے ان کی موافقت نہ لے لی۔[5] اوراسی طرح مہاجربن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو یمن یا حضرموت کی گورنری کو اختیار کرنے کا اختیار دیا اور جب مہاجر رضی اللہ عنہ نے یمن کو اختیار کیا تو آپ نے وہاں ان کی تقرری فرما دی۔[6] ابوبکر رضی اللہ عنہ کا طریقہ کار یہ تھا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کسی قوم پر گورنر مقرر کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھتے کہ اگر اس قوم کے افراد میں نیک وصالح افراد ہوتے تو انھی میں سے گورنر مقرر فرماتے، جب کہ طائف اور بعض دیگر قبائل پر انھی میں سے گورنر مقرر فرمایا۔ اور جب آپ کسی شخص کو بحیثیت
Flag Counter