Maktaba Wahhabi

196 - 512
کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز پڑھا رہے تھے۔ عبیداللہ کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور عرض کیا: کیا میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت سے متعلق بیان کی ہے اس کو آپ پر پیش کروں؟ فرمایا: بیان کرو۔ جب میں نے بیان کیا تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تمام باتوں کی تصدیق کی، کسی بات پر نکیر نہ کی صرف اتنا کہا: کیا ام المومنین نے عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ دوسرے شخص جو تھے ان کا نام لیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں۔ تو فرمایا: وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ [1] یہ حدیث بہت سے عظیم فوائد پر مشتمل ہے۔ من جملہ ان فوائد کے یہ ہے: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور دیگر تمام صحابہ پر آپ کی ترجیح وتفضیل اور یہ کہ دوسروں کے مقابلہ میں آپ خلافت کے زیادہ حق دار ہیں۔ امام کو جب کوئی عذر لاحق ہو جائے کہ وہ جماعت میں شریک نہ ہو سکے تو دوسرے کو نیابت سونپ دے اور جس کو نائب بنائے وہ ان میں سب سے افضل ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت وبزرگی کیونکر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو امامت کی پیشکش کی، کسی دوسرے کو نہیں کہا۔[2] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو انصار نے کہا: ’’ہم میں سے ایک امیر ہو اور آپ (مہاجرین) میں سے ایک امیر ہو۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس پہنچے اور کہا: اے انصار! کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لوگوں کی امامت کا حکم دیا ہے؟ تو تم میں سے کون گوارا کرے گا کہ وہ ابوبکر سے آگے بڑھے؟ انصار نے جواباً عرض کیا: اس بات سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم ابوبکر سے آگے بڑھیں۔[3] علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو ہم نے اپنے معاملہ (خلافت) میں غور کیا، تو ہم نے پایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز کی امامت کے لیے آگے بڑھایا، تو جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے لیے پسند فرمایا اس کو ہم نے اپنی دنیا کے لیے پسند کر لیا اور منصب خلافت کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھاتے ہیں۔[4]
Flag Counter