اور اس پر رافضیوں کی علامات کھڑی کر کے عاشورۂ محرم کا ماتم شروع کروا دیا، میں کہتا ہوں : ۴۰۰ ہجری میں اسلام پرمغرب میں دولت عبیدیہ کی وجہ سے، مشرق میں دولت بویہیہ اور قرامطہ اعرابیوں کی وجہ سے شدید آفت ٹوٹی، مگر اختیارات کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔‘‘[1]
۳۴۷ ہجری کے حوادث کے ضمن میں ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’بنو بویہہ، بنو حمدان اور فاطمی حکمرانوں کی وجہ سے ان کے زیر نگیں علاقے رفض اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے سب و شتم سے بھر گئے تھے۔ مصر، شام، عراق اور خراسان وغیرہا، نیز حجاز اور غالب بلاد مغرب کے لوگ رافضی تھے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بکثرت سب و شتم کرتے اور ان پر کفر کے فتوے لگاتے۔‘‘[2]
سمہودی اپنی کتاب ’’وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی‘‘ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قبر کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر اسلاف کی قبریں لوگوں کے علم میں نہیں تھیں ۔ وہ لوگ قبروں پر عمارتیں نہیں کھڑی کرتے تھے اور نہ انہیں پختہ ہی بناتے تھے۔‘‘[3]
امام شافعی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں : ’’میں نے انصار و مہاجرین کی قبریں پکی نہیں دیکھیں ۔‘‘ حضرت طاؤ س سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر عمارتیں کھڑی کرنے اور انہیں پختہ بنانے سے منع فرمایا۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’میں نے ایک ایسا والی دیکھا جو مکہ مکرمہ میں ایسی قبریں گرا رہا تھا جن پر عمارتیں بنائی گئی تھیں مگر میں نے فقہاء کرام کو اس پر اعتراض کرتے نہیں دیکھا۔‘‘[4]
تاریخی حقیقت یہی بتاتی ہے کہ بڑی فضیلت کی حامل پہلی تین صدیوں میں نہ تو قبروں کی تعظیم کی جاتی تھی، نہ کہیں زیارت گاہیں تھیں ، نہ قبے اور نہ قبر پرستی کے دیگر مظاہر، اس بارے میں شیعہ نے جو کچھ کرنے کی کوشش کی اس کی ابوجعفر منصور عباسی اور ہارون الرشید جیسے امراء و خلفاء کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی۔[5]
(چہارم) خروج حسین رضی اللہ عنہ شرعی میدان میں :
یزید کے ساتھ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے معارضہ میں گہرے سوچ بچار کے فقدان اور اس واقعہ کی تاریخی روایات کے مطالعہ میں عدم تامل نے بعض لوگوں کو اس مقام پر لا کھڑا کیا کہ وہ اس بات کی طرف مائل نظر آنے لگے کہ حسین رضی اللہ عنہ نے امام کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کا انہیں جو بھی نقصان اٹھانا پڑا وہ ایک
|