Maktaba Wahhabi

334 - 441
وہ امور ہیں جو اہل بیت کے حق میں ہمارے جذبات کو اور زیادہ انگیخت کرتے ہیں ۔ انہی مراسم میں سے سر اور سینوں کا پیٹنا بھی داخل ہے۔‘‘[1] اہل تشیع کا نفس ناطقہ، مرجع العام و الخاص آیت اللہ العظمی امام خمینی شیعہ ذاکروں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’خطباء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرثیے پڑھا کریں ۔ جبکہ عوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ تعزیتی جلوسوں اور ماتمی مجالس میں نکلا کریں تاکہ سینہ کوبی کریں اور اپنے سے پہلوں کے افعال پر عمل کریں ۔‘‘[2] ایک اور جگہ امام خمینی لکھتا ہے: تعزیتی جلوسوں میں نکل کر سینہ کوبی کرنا اہل بیت کے ساتھ ہمارے اظہار ہم دردی کی ایک رمز ہے اس لیے ہمیں بلاد و امصار میں ماتمی مجالس کو قائم کرنا چاہیے جس میں خطباء مرثیے پڑھیں ، عوام زار و قطار روئے، سینہ کوبی کرے، حسینی نعرے لگائے جیسا کہ گزشتہ لوگ کیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان مراسم و شعائر کے بل پر زندہ ہیں ۔‘‘[3] نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کے جواز کا فتویٰ: اہل تشیع کے اکابر علماء نے ان بدعات کے جواز کا برملا فتویٰ دیا ہے چنانچہ اہل تشیع کے امام محقق، رئیس الفقہاء آیت اللہ العظمی شیخ محمد حسین نائینی سے جب ماتمی جلوسوں میں کیے جانے والے حسینی شعائر کے بارے سوال کیا گیا تو موصوف نے یہ تفصیلی جواب لکھا: اوّل:… پس محرم کے دن گلی کوچوں ، سڑکوں اور شاہراہوں پر ماتمی جلوسوں کے نکالنے کے جواز میں کوئی شک نہیں ۔ بلاشبہ یہ مظلوموں کی عزاداری کا سچا ترین طرز و طریق ہے اور دور و نزدیک کے ہر انسان تک حسینی دعوت پہنچانے کا سہل ترین راستہ بھی ہے۔ البتہ مناسب ہے کہ جلوسوں کے شرکاء ان امور سے گریز کریں جو ان کے شایانِ شان نہیں جیسے گانا گانا، لہو و طرب اور موسیقی کے آلات کا استعمال کرنا، دو محلوں کے لوگوں کا جلوس پہلے نکالنے میں باہم جھگڑا کرنا وغیرہ اور اگر ان امور میں سے کسی امر کا اتفاقی وقوع ہو بھی جاتا ہے تو وہ امر بذات خود تو ضرور حرام ہے لیکن اس کی حرمت ماتمی جلوس تک سرایت نہیں کرتی۔ اس کی نظیر حالت نماز میں اجنبیہ کی طرف دیکھنا ہے کہ اگرچہ وہ بذات خود حرام ضرور ہے لیکن دوران نماز اجنبیہ کو
Flag Counter