Maktaba Wahhabi

39 - 441
’’اگر تجھے معلوم نہیں کہ موت کیا ہوتی ہے تو بازار میں ہانی اور ابن عقیل کی طرف دیکھ۔ انہیں امام کے حکم سے مارا گیا اور وہ راستوں میں چلنے والے مسافروں کے لیے باتیں بن گئے۔ اس بہادر کی طرح جس کے چہرے کو تلوار نے توڑ دیا ہے اور دوسرا مقتول کے کپڑوں میں ہلاک ہوا پڑا ہے۔ تو ایک جسم کو دیکھے گا جس کے رنگ کو موت نے تبدیل کر دیا ہے اور خون کے چھڑکاؤ کو دیکھے گا جو ہر جگہ بہ رہا ہے۔ اور اگر تم نے اپنے بھائی کا بدلہ نہ لیا تو پھر فاحشہ عورت بن جاؤ جسے تھوڑی چیز پر راضی کر لیا جاتا ہے۔‘‘ مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر کا حسین رضی اللہ عنہما تک پہنچنا اور ابن زیاد کے لشکر سے ملاقات کرنا: حضرت حسین رضی اللہ عنہ ۸ ذوالحجہ ۶۰ ہجری کو مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے تو والی مکہ عمرو بن سعید بن العاص نے اپنے بھائی یحییٰ بن سعید بن العاص کی سربراہی میں ان کے پاس ایک وفد بھیجا جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو واپس لانے کی کوشش کی مگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ اللہ سے نہیں ڈرتے، آپ مسلمانوں کی جماعت سے نکل رہے ہیں اور اس امت میں اختلاف پیدا کر رہے ہیں ۔ اس پر انہوں نے اس قرآنی آیت کی تلاوت کی: ﴿لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بَرِیْٓؤُنَ مِمَّآ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَo﴾ (یونس: ۴۱) ’’میرے لیے میرا عمل اور تمہارے لیے تمہارا عمل ہے۔ تم میرے اعمال سے لاتعلق ہو اور میں تمہارے اعمال سے لاتعلق ہوں ۔‘‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے اہل بیت اور اہل کوفہ کے ساٹھ شیوخ کے ساتھ عراق روانہ ہوئے تھے۔[1] آپ کی روانگی کے وقت مروان بن حکم نے ابن زیاد کو لکھا: حسین بن علی رضی اللہ عنہ تیری طرف آ رہے ہیں ۔ حسین رضی اللہ عنہما فاطمہ الزہرا کے فرزند ارجمند ہیں اور فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ہیں ۔ اللہ کی قسم حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر ہمیں کوئی شخص پیارا نہیں ہے، خبردار غصے میں آ کر کوئی ایسی حرکت نہ کرنا جس کا کوئی چیز ازالہ نہ کر سکے، اسے عوام الناس بھلا نہ سکیں اور اس کی یاد ہمیشہ آتی رہے۔ و السلام علیک۔[2] اسی
Flag Counter