کے میدانوں میں سے ہے۔‘‘[1]
بے شک زیارت حسین یا قبر حسین کی زیارت دین کا حصہ نہیں ۔ دین تو اس سے قبل مکمل ہو چکا تھا جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: ۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا حکم امیر المومنین علی، حضرات حسنین کریمین، حضرت ابو ذر، حضرت مقداد، حضرت عمار، حضرت حذیفہ، حضرت ابو سعید خدری وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو بھی تو نہیں دیا اور اگر بالفرض یہ حکم تھا بھی تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ قبر حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت کے اس ثواب سے یہ تمام مذکورہ اصحاب اور خود جناب حسین رضی اللہ عنہ بھی محروم رہے۔
امام صادق قتل حسین کے بعد آئے ہیں ۔ حنان بن سدیر سے شیعہ حضرات روایت کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں میں نے ابو عبداللہ سے پوچھا: آپ قبر حسین کی زیارت کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ تم میں سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’زیارت قبر حسین اجر کے اعتبار سے حج اور عمرہ کے برابر ہے‘‘ تو فرمانے لگے:
’’یہ حدیث کتنی سخت ہے زیارتِ قبر حج اور عمرہ کے برابر ہرگز بھی نہیں ۔ البتہ ان کی قبر کی زیارت کرو اور ان سے جفا نہ کرو کہ وہ نوجوانانِ جنت کے سردار ہیں ۔‘‘[2]
روضۂ حسین کی بدعت:
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر شیعوں نے روضہ بنا کر خود ان کے علماء کے بقول گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ شیعہ کے امام اور شیخ جناب شیرازی لکھتے ہیں :
’’شیعہ حضرات یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ پیغمبروں ، ائمہ اور اسلامی شخصیات کی قبروں پر روضے بنانا سب سے بڑی نیکی ہے،[3] بے شک یہ قول سراسر باطل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
|