کی طرف روانہ نہ ہوئے تھے، کسی نے بھی آپ کو یزید کی بیعت کر لینے پر مجبور نہ کیا تھا، لیکن جیسے ہی یزید کی بیعت کر لی گئی تو ان حضرات کو سب سے زیادہ خدشہ امت میں وحدت و اتحاد کے قائم ہو جانے کا تھا اس لیے انہوں نے بہتان تراشیوں اور فتنہ انگیزیوں کی آگ بھڑکا دی۔ ان کی جھوٹی افواہوں اور دغا بازیوں کو دیکھتے ہوئے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کرنے کی بابت اپنا موقف تبدیل کر لیا اور اب آپ نے پرامن معارضہ کے بجائے اسلحہ اٹھا لینے کا فیصلہ کر لیا اور شاید اس کی دو وجوہات تھیں:
پہلی وجہ:
خلافت یزید کی بیعت کے لیے شوریٰ کی اس عملی شکل میں تشکیل نہ دی گئی تھی جیسا کہ حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ادوار میں ہوتا تھا اور یہ حقیقت ہے۔ جبکہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد سے یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے یزید کی بیعت کے لیے شوریٰ منعقد کر لی ہے، وہ یوں کہ انہوں نے اقالیم، سربر آوردہ شخصیات،
والیان، لشکروں کے قائدین، قاضیوں اور علماء سے یزید کی بابت بیعت لے لی تھی۔ یوں انہوں نے اس طرح یزید کی بیعت کی بابت امت کی موافقت و تائید حاصل کر لی تھی۔ دوسرے اس وقت حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم جیسا ایسا کوئی فرد بھی تو نہ تھا کہ جس پر وحدتِ کلمہ کا انعقاد ہو سکتا۔ جیسا کہ حضرات انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ میں کیا کرتے تھے کہ جب وہ کسی کی بیعت کر لیتے تھے تو باقی امت پر سمع و طاعت لازم ہو جاتی تھی کہ حضرات انصار و مہاجرین رضی اللہ عنہم اہل حل و عقد تھے۔
پھر اگر یزید کے علاوہ کسی کی بیعت کی جاتی تو امر خلافت میں استقرار و استحکام اور استقامت منعقد نہ ہو سکتی تھی کیونکہ اس وقت قوت و شوکت اور استقرار خلافت کے جملہ اسباب یزید کی تائید میں جاتے تھے اور کوئی دوسرا اس قوت و شوکت اور تائید و حمایت میں یزید سے آگے نہ نکل سکتا تھا، جس کا لازمی نتیجہ تشتت و افتراق اور متعدد اجتہادات کی صورت میں نکلتا اور صراع و نزاع کا آغاز ہو جاتا۔ اسی امر نے جلیل القدر اور سربرآوردہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکوت اختیار کرنے اور امت کی وحدت اور امن و استقرار کی خاطر یزید کی بیعت کو تسلیم کر لینے پر آمادہ کیا، وگرنہ جملہ اصحابِ رسول اور ان کی اولادیں سب کے سب یزید سے ظاہر و باطن ہر اعتبار سے بہتر تھے۔ اسی بات کو حضرت یُسیر بن عمرو رضی اللہ عنہ نہایت بلاغت کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ چنانچہ حمید بن عبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ ہم یزید کے خلیفہ بننے کے بعد حضرت یسیر بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو فرمانے لگے:
’’لوگ کہتے ہیں کہ یزید اُمت محمدیہ کا بہتر آدمی نہیں ، میں بھی اسی بات کا قائل ہوں ، لیکن بات یہ ہے کہ رب تعالیٰ کا امت محمدیہ کے امر کو متحد رکھنا یہ مجھے اس کے متفرق و منتشر ہو جانے سے
|