جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ۔ ‘‘[1]
سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور امت مسلمہ:
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھول تھے وہیں امت مسلمہ کے بھی پھول ہیں ۔ جو شخص بھی سنت نبویہ سے محبت کرنے والا اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے والا ہے اسے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ اہل سنت و الجماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ ان دونوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت فرماتے بھی تھے اور ان سے محبت کرنے کا حکم بھی دیتے تھے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عامل نہیں اور پھر حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت کا دعوے دار بھی ہے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا اور اس کا گمان باطل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میت پر رونے چلانے، نوحہ کرنے، منہ اور سر پیٹنے، گریبان چاک کرنے اور ماتم کرنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ سب کچھ رب کی تقدیر پر اعتراض اور رب پر ناراضی کا اظہار ہے۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی صریح مخالفت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس نے (مرنے والے کے غم میں ) رخساروں کو پیٹا اور گریبان چاک کیا وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘[2]
اور فرمایا:
’’میری امت میں چار باتیں امر جاہلیت میں سے ہیں ، یہ ان کو نہ چھوڑیں گے: (۱) حسب نسب پر فخر (۲) نسبوں میں طعن (۳) ستاروں سے بارش مانگنا (۴) اور نوحہ کرنا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’لوگوں میں دو باتیں ایسی ہیں جو کفر کی ہیں ، نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا۔‘‘[3]
|